’داعش کی خلافت کو تقسیم کرنے کی عسکری کوشش‘
29 جون 2016![Syrien Militäroperation gegen IS](https://static.dw.com/image/19363723_800.webp)
خبر رساں ادارے روئٹرز نے شامی باغیوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ عراق کی سرحد سے متصل شامی شہر البوکمال میں اس تازہ فوجی کارروائی کا مقصد اس علاقے میں داعش کی کارروائیوں کو ختم کرنا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس کارروائی میں ان اعتدال پسند باغیوں کو امریکی فضائیہ کا مکمل تعاون بھی حاصل ہے۔
تاہم بدھ کو سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے بتایا کہ جہادیوں نے ان باغیوں کے ایک اہم حملے کو ناکام بنا دیا جبکہ اس اہم ایئر بیس پر بھی کنٹرول حاصل کر لیا ہے، جس پر گزشتہ روز ان باغیوں نے داعش کے جنگجوؤں کو پسپا کر دیا تھا۔
دوسری طرف اعتدال پسند باغی گروہ ان جہادیوں کے خلاف ترک سرحد کے قریب واقع شامی علاقوں میں بھی اپنی کارروائیوں میں تیزی لے آئے ہیں۔ باغیوں کے ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ اس دو طرفہ کارروائی کے نتیجے میں داعش کے جنگجوؤں پر عسکری دباؤ بڑھ چکا ہے۔
البو کمال میں جاری عسکری کارروائی کی قیادت ’نیو سیریئن آرمی‘ کر رہی ہے، جو اٹھارہ ماہ قبل مختلف شامی باغی گروہوں کے اتحاد کے نتیجے میں معرض وجود میں آئی تھی۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ اس آرمی کو امریکی عسکری ماہرین نے خصوصی تربیت بھی فراہم کر رکھی ہے۔
سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق منگل کو شروع کیا گیا یہ آپریشن انتہائی اہم ہے کیونکہ اگر جہادی البو کمال میں پسپا ہو جاتے ہیں تو یہ ان کے لیے علامتی طور پر ایک بڑی شکست ہو گی۔ عسکری حوالے سے عراق اور شام کو ملانے والا یہ مقام انتہائی اہم قرار دیا جاتا ہے۔
شامی شہر البو کمال ملکی صوبے دیرالزور کا حصہ ہے، جہاں سے عراق کے ساتھ شامی سرحد زیادہ دور نہیں ہے۔ دیر الزور کے زیادہ تر حصوں پر داعش قابض ہے۔
داعش کے جنگجوؤں نے سن 2014 میں البو کمال پر قبضہ کرتے ہوئے عراق اور شام کے مابین اس سرحدی علاقے میں پائی جانے والی جغرافیائی تفریق ختم کر دی تھی۔ اسی وجہ سے داعش نے ان دونوں ممالک کے مختلف حصوں پر مشتمل اپنی نام نہاد خلافت کا دعویٰ کیا تھا۔
دریں اثناء امریکی محکمہ دفاع کے ایک ترجمان نے ایسی خبروں پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے کہ البو کمال میں تازہ کارروائی شروع کی گئی ہے، جس کے لیے امریکی عسکری اتحاد باغیوں کی مدد کر رہا ہے۔ تاہم ترجمان نے تسلیم کیا کہ واشنگٹن حکومت کچھ باغی گروہوں کی مدد کر رہی ہے۔ لیکن وہ کون سے باغی گروہ ہیں، اس بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔