1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

داعش کی صفوں سے یورپ لوٹنے والے جہادی ’ٹائم بم‘ تو نہیں؟

عدنان اسحاق4 اپریل 2016

یورپ میں دہشت گردانہ حملوں کے بعد حکام جہادیوں کی واپسی کے موضوع پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ جرمنی میں اس سلسلے میں جمع کی جانے والی معلومات کو اب باقاعدہ دستاویزی شکل دی جا رہی ہے۔

تصویر: picture-alliance/dpa/H. Hollemann

انسداد دہشت گردی کے جرمن ادارے ’جی ٹی اے زیڈ‘ کے نمائندے روزانہ بنیادوں پر برلن میں سلامتی کے ذمے دار چالیس ملکی اداروں کے اہلکاروں سے ملتے ہیں۔ اس ملاقات میں آئینی تحفظ کے ادارے، جرمن خفیہ سروس بی این ڈی اور عسکری شعبے کے ادارے ’ایم اے ڈی‘ کے نمائندے بھی شرکت کرتے ہیں۔ اس موقع پر یہ تمام ادارے اپنی جمع کردہ معلومات سے ایک دوسرے کو آگاہ کرتے ہیں۔ اس دوران ’اسلامک اسٹیٹ کے مشتبہ دہشت گردوں کی نقل و حرکت کا ذکر ہوتا ہے۔ مثلا ً آئی ایس کا ساتھ دینے کے لیے کتنے افراد نے جرمنی چھوڑا؟ اور خاص طور پر کتنے مشتبہ دہشت گرد جرمنی واپس پہنچے؟

اس دوران حکام نے یہ نہیں بتایا کہ معلومات کا یہ تبادلہ کس طرح ہوتا ہے اور کس طرح ان لوگوں کی نگرانی کی جاتی ہے۔ تاہم سلامتی کے شعبے کے ماہرین کا خیال ہے کہ مشاہدے کا یہ عمل نسبتاً بہتر انداز میں جاری ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ بہتر تفتیش کا دار و مدار دو چیزوں پر ہوتا ہے، ایک تو غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے مہیا کی جانے والی معلومات پر اور دوسرے حراست میں لیے جانے والے جہادیوں سے کی جانے والی پوچھ گچھ کے نتائج پر۔

تصویر: Reuters/F. Bensch

ڈسلڈورف شہر کی ایک عدالت کے اہلکار نیلز ڈی نے بتایا،’’اسلام قبول کرنے والے ایک پچیس سالہ نوجوان نے بتایا کہ کس طرح شام میں اس نے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے لیے جاسوسی کی اور مخالفین کو اسلحے کے زور پر اغوا کرتے ہوئے آئی ایس کی قیادت کے حوالے کیا۔ ابراہیم بی نامی اس نوجوان نے آئی ایس کے تنظیمی ڈھانچے اور خود کش حملوں کی منصوبہ بندی کے بارے میں تفصیلات سے بھی آگاہ کیا۔ ابراہیم کو شمالی عراق میں اس تنظیم کا ساتھ دینے کے بعد جرمنی واپس پہنچے پر حراست میں لیا گیا تھا۔

اس دوران جہادی تنظیموں کا ساتھ دینے کے بعد یورپ واپس پہنچنے والوں کے بارے میں کافی ساری معلومات جمع کی جا چکی ہیں۔ جرائم کی روک تھام کے جرمن ادارے کے مطابق تقریباً آٹھ سو شدت پسند شام گئے تھے اور ان میں سے ایک تہائی واپس جرمنی پہنچ چکے ہیں۔ 2011ء کے بعد سے ایسے افراد کی نگرانی کو انتہائی سخت کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح انٹرنیٹ اور خاص طور پر سماجی ویب سائٹس پر نظر رکھنے سے بھی تشدد پر مائل افراد اور گروپوں کے بارے میں کافی معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں