داعش کے برطانوی جہادیوں کی سماعت کے لیے امریکا منتقلی
8 اکتوبر 2020
انتہا پسند تنظیم داعش سے وابستہ دو مشتبہ برطانوی شدت پسندوں کو امریکا لاگیا ہے تاکہ ان پر مقدمہ چلایا جا سکے۔ انہوں نے امریکی، برطانوی اور جاپانی صحافیوں سمیت دیگر افراد کے سرقلم کرتے ہوئے اپنے آپ کو فلمایا تھا۔
اشتہار
امریکی محکمہ انصاف کا کہنا ہے کہ شام میں یرغمال بنائے جانے والے افراد کے ساتھ تشدد کرنے اور ان کے سر قلم کرنے جیسے دیگر وحشیانہ تشدد کے الزامات کا سامنا کرنے کے لیے برطانیہ سے تعلق رکھنے والے دولت اسلامیہ (داعش) سے وابستہ دو مبینہ شدت پسندوں کو امریکا لایا گیا ہے۔ ان پر امریکا، برطانیہ اور جاپان جیسے کئی ممالک کے صحافیوں، امدادی کارکنان اور بعض شامی فوجیوں کو قتل کرنے کے الزامات ہیں۔
الشفیع الشیخ اور الیگزینڈا کوٹی کو امریکا لایا گیا ہے۔ ان دونوں کا تعلق چار اغوا کاروں کے اس گروپ سے ہے جنہیں ان کے برطانوی لہجے کی وجہ سے 'بیٹلس' کا نام دیا گیا تھا۔ بدھ سات اکتوبر کو امریکا پہنچنے کے بعد دونوں کو ورجینیا الیکزنڈریا کی ایک وفاقی عدالت میں پیش کیا گیا۔
عدالت کی ایک بڑی جیوری نے ان افراد کے خلاف آٹھ الزامات کی فہرست پر مبنی فرد جرم سنائی اور اس پر مقدمہ چلانے کو منظوری دے دی۔ فرد جرم میں کہا گیا ہے کہ ان دونوں افراد نے یرغمال بنانے والی ایک ایسی سفاکانہ اسکیم کی رہنمائی کی جس کے نتیجے میں امریکی صحافی جیمز فولی سمیت متعدد مغربی ممالک کے شہریوں کو قتل کیا گیا۔
لوٹ کے مقتل دیکھوں!
02:08
ایک برس قبل ہی امریکا نے ان مشتبہ شدت پسندوں کی گرفتاری کے بعد شام سے عراق منتقل کیا تھا۔2014 اور 2015 میں بیٹلس گروپ نے امریکی، برطانوی اور جاپانی صحافیوں، امدادی کارکنان اور کچھ شامی فوجیوں کا سر قلم کرتے ہوئے اپنے آپ کو فلمایا تھا۔ ایسے افراد کی سر قلم کرنے والی ویڈیوز کو داعش اپنے پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرتا تھا۔
امریکا انصاف کا طالب ہے
محکمہ انصاف کے اسسٹنٹ اٹارنی جنرل جان ڈیمرز کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں محکمہ انصاف کی کد و کاوش اس بات کی مظہر ہیں کہ ایسے افراد کے خلاف قانونی کارروائی امریکی عدالتوں میں ہوگی اور عسکریت پسند خواہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں، ان کا آخر تک تعاقب کیا جائیگا۔ ان کا کہنا تھا، ''اگر آپ میں امریکی خون ہے یا پھر آپ کے سر پر امریکا کا خون ہے تو پھر آپ کو امریکی انصاف کا سامنا کرنا پڑے گا۔''
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)
ایسی تصاویر، جنہوں نے دنیا کو دہلا دیا
شامی مہاجر ایلان کُردی کی ساحل سمندر پر پڑی لاش کی تصویر لاکھوں مہاجرین کے مصائب کی علامت بن گئی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں ایسی ہی دیگر آٹھ تصویریں جو عالمی سیاست میں علامتی اہمیت کی حامل تصور کی جاتی ہیں۔
تصویر: STAN HONDA/AFP/Getty Images
’نیپام گرل‘
جنوبی ویت نام کے ایک گاؤں میں ’نیپام بم‘ کے دھماکے کے بعد خوفزدہ اور سہمے ہوئے بچے۔ اس بم سے متاثر ہونے والی نوسالہ لڑکی ’پھن کِم پُھک‘ نے اپنے کپڑے اتار دیے تھے کیونکہ ان میں آگ لگ چکی تھی۔ یوں وہ زندہ بچنے میں کامیاب بھی ہو گئی تھی۔ اس تصویر نے ویت نام جنگ سے متعلق عوامی رائے کو بدلنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا۔ 1973ء میں فوٹو گرافر نِک اُٹ کو اس تصویر پر پولٹزر ایوارڈ بھی ملا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Images
گردوغبار سے اٹی ہوئی خاتون
11 ستمبر2001ء کو جب نیو یارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر دہشت گردانہ حملے کیے گئے تو تباہی کا عالم دیکھنے میں آیا۔ یہ تصویر بھی اسی وقت لی گئی تھی۔ اس تصویر میں مارسی بارڈر نامی ایک ایسی خاتون گرد و غبار میں ڈھکی نظر آ رہی ہے، جو اس تباہی کے بعد وہاں سے فرار ہونے کی کوشش میں تھی۔ بارڈر چھبیس اگست 2015ء کو معدے کے کینسر کی وجہ سے انتقال کر گئی۔ وہ اسی سانحے کی اثرات کی وجہ سے کینسر میں مبتلا ہوئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AFP
ٹینک کے سامنے
پانچ جون 1989ء کو یہ چینی نوجوان اچانک ٹینکوں کے سامنے کھڑا ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے دارالحکومت بیجنگ میں ٹینکوں کے کاروان کو رکنا پڑ گیا تھا۔ یہ تصویر اُس دن سے صرف ایک روز پہلے لی گئی تھی، جب چینی فوج نے بیجنگ کے تیانمن اسکوائر پر حکومت مخالف مظاہروں کو سنگدلی سے کچل دیا تھا۔ اس شخص کے بارے میں ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ وہ کون تھا۔
تصویر: Reuters/A. Tsang
بینو اوہنے زورگ کی ہلاکت
دو جون 1967ء کو ایران کے شاہ کی جرمنی آمد پر مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف پولیس نے طاقت کا استعمال کیا تھا۔ اسی موقع پر جرمن طالب علم بینو اوہنے زورگ گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا تھا۔ اسی طالب علم کی ہلاکت کے باعث ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں بائیں بازو کی تحریک میں انتہا پسندانہ رجحانات شامل ہو گئے تھے۔ جب یہ حادثہ پیش آیا تھا تو اوہنے زورگ کی اہلیہ اپنے پہلے بچے کے ساتھ حاملہ تھی۔
تصویر: AP
کینیڈی کا قتل
امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو نومبر 1963ء میں ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلس میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اس وقت ابراہم زپروڈر اس صدارتی قافلے کی کوریج پر متعین تھے اور انہوں نے کینیڈی پر اس حملے کے لمحے کو بھی فلمبند کر لیا تھا۔ فریم 313 میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک گولی کینیڈی کے سر میں لگی۔ تاہم ابراہم زپروڈر اس فریم کو شائع نہیں کرنا چاہتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
میونخ میں قتل عام
میونخ میں 1972ء میں منعقد ہوئے اولمپک مقابلوں کے دوران اسرائیلی ٹیم کے گیارہ ایتھلیٹس کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ بعدازاں فلسطینی دہشت گرد گروہ ’بلیک ستمبر‘ نے انہیں ہلاک بھی کر دیا تھا۔ اس تاریخی تصویر میں ایک اغوا کار کو دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: dapd
افغان لڑکی
اسٹیو مککری کا بنایا ہوا یہ پورٹریٹ 1985ء میں منظر عام پر آیا تھا۔ اگرچہ یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ یہ لڑکی پاکستان میں بطور مہاجر زندگی بسر کر رہی تھی لیکن یہ تصویر افغانستان میں سوویت قبضے اور دنیا بھر میں افغان مہاجرین کی زبوں حالی کی ایک علامت بن گئی تھی۔ بارہ سالہ اس بچی کی شناخت 2002ء تک پوشیدہ ہی رہی تھی۔ اس سے قبل شربت گلہ نامی اس لڑکی نے اپنا یہ پورٹریٹ بھی نہیں دیکھا تھا۔