داعش کے جہادی کی بیوی کی واپسی کا جھگڑا، ناروے حکومت ٹوٹ گئی
21 جنوری 2020
ایک جہادی کی اہلیہ کو شام سے واپس لانے کے فیصلے کے بعد ناروے کی عوامیت پسند پارٹی نے حکومتی اتحاد سے علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس خاتون کا بچہ شدید بیمار ہے اور اسے علاج کے لیے واپس لایا جا رہا ہے۔
اشتہار
ناروے میں دائیں بازو کی جماعت پروگریس پارٹی نے پیر کے روز حکومتی اتحاد سے الگ ہو جانے کا اعلان کر دیا۔ اس عوامیت پسند جماعت نے یہ فیصلہ اس خاتون کو واپس ناروے لانے کے حکومتی فیصلے کے بعد کیا، جس پر الزام ہے کہ اس نے شام میں دہشت گرد گروپوں کی حمایت کی تھی۔
ناروے کی خاتون وزیر خزانہ سیو جنسن کا ایک نیوز کانفرنس میں کہنا تھا کہ حکومت میں رہتے ہوئے ان کے لیے اپنی جماعت کی پالیسیوں پر کاربند رہنا مشکل ہو گیا تھا۔ انہوں نے کہا، ''میں اپنی جماعت کو حکومت میں لائی تھی اور میں ہی اب حکومت چھوڑ کر جا رہی ہوں۔‘‘
اس اعلان کے ساتھ ہی ناروے کی قدامت پسند خاتون وزیر اعظم ایرنا سولبرگ کو حاصل پارلیمانی اکثریت بھی ختم ہو گئی ہے۔ اس اعلان کے کچھ دیر بعد ہی وزیر اعظم نے کہا کہ وہ فی الحال اقلیتی حکومت کی سربراہ کے طور پر وزیر اعظم کے عہدے پر کام کرتی رہیں گی۔ لیکن یہ واضح ہے کہ ان کے لیے اب حکومت کرنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔ ناروے کا آئین قبل از وقت انتخابات کی اجازت نہیں دیتا اور آئندہ پارلیمانی الیکشن ستمبر دو ہزار اکیس میں ہوں گے۔
ایک خاتون کی واپسی کا تنازعہ
گزشتہ ہفتے ناروے کی کابینہ نے شام میں موجود اپنی ایک ہم وطن خاتون کو اس کے دو بچوں کے ہمراہ واپس ناروے لانے کی منظوری دے دی تھی تاکہ اس کے پانچ سالہ بیمار بچے کا علاج کیا جا سکے۔ یہ تینوں اس وقت شام میں کردوں کے زیر کنٹرول الحول مہاجر کیمپ میں رہ رہے ہیں۔ ناروے کی شہری یہ خاتون سن دو ہزار تیرہ میں ملک چھوڑ کر شام چلی گئی تھیں۔ ان پر شبہ ہے کہ وہ جہادی تنظیم داعش کی کارکن رہ چکی ہیں۔
وکیل دفاع کا کہنا ہے کہ متاثرہ خاتون ان الزامات کی مکمل طور پر تردید کرتی ہیں اور پولیس کے ساتھ مکمل تعاون کے لیے تیار ہیں۔ ناروے کی پروگریس پارٹی نے بچوں کو طبی امداد فراہم کرنے کی تو حمایت کی تھی لیکن یہ جماعت ایسے تمام بالغ افراد کی مدد کرنے کے خلاف ہے، جنہوں نے غیرملکی جہادیوں سے شادیاں کیں یا پھر جہادی گروپ داعش میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔
صرف ناروے ہی نہیں یورپ کے زیادہ تر ممالک میں اس وقت یہ تنازعہ پایا جاتا ہے کہ داعش میں شمولیت کے لیے شام یا عراق جانے والے افراد یا ایسے افراد سے شادیاں کرنے والی یورپی خواتین کو واپس آنے کی اجازت دی جائے یا نہیں۔
گزشتہ برس نومبر میں جرمنی نے بھی ایک ایسی خاتون کو اپنے تین بچوں کے ہمراہ واپس آنے کی اجازت دے دی تھی، جس پر شبہ تھا کہ وہ داعش کی رکن تھی۔ فن لینڈ کی حکومت نے بھی حال ہی میں اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ ممکنہ وطن واپسی کے ایسے ہر کیس کی انفرادی سطح پر جانچ پڑتال کی جائے گی۔
ا ا / م م ( روئٹرز، ڈی پی اے، اے ایف پی)
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔