’داعش کے حامی‘ اسلامی مرکز پر پابندی: مسجد بند، اثاثے ضبط
17 دسمبر 2015![Deutschland Stuttgart Razzia bei Mesdschid Sahabe](https://static.dw.com/image/18924793_800.webp)
وفاقی دارالحکومت برلن سے موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق آج جمعرات سترہ دسمبر کے روز مارے جانے والے چھاپے کے دوران پولیس نے جنوب مغربی شہر اشٹٹ گارٹ میں پہلے تو اس جگہ کی تلاشی لی اور پھر ایک قانونی نوٹس جاری کر دیا گیا۔
جنوبی جرمن صوبے باڈن ورٹمبرگ کے وزیر داخلہ رائن ہارڈ گال نے بتایا کہ اس چھاپے اور متعلقہ مسلم تنظیم اور اس کی قائم کردہ مسجد کی بندش کے ساتھ ہی اس مرکز کو قانوناﹰ تحلیل کر دیا گیا ہے اور اس کی جملہ املاک ضبط کر لی گئی ہیں۔
رائن ہارڈ گال نے یہ نہیں بتایا کہ آیا اس موقع پر کسی فرد کو گرفتار بھی کیا گیا۔ تاہم انہوں نے زور دے کر کہا، ’’ہم ایسی تنظیموں کو برداشت نہیں کرتے، جو اپنے مذہبی خیالات کی ترویج کے لیے تشدد کے استعمال کی حمایت کرتی ہیں اور دہشت گرد گروہوں کے لیے عطیات جمع کرتی ہیں۔‘‘
صوبائی وزیر داخلہ نے بتایا کہ باڈن ورٹمبرگ کے دارالحکومت اشٹٹ گارٹ میں جس اسلامی مرکز کو بند کرنے کے بعد قانوناﹰ ممنوع قرار دے دیا گیا ہے، اس کا نام ’مسجد صحابہ اسلامک ایجوکیشنل اینڈ کلچرل سینٹر‘ تھا، جہاں زیادہ تر یورپ میں مغربی بلقان کے خطے کی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے بنیاد پرست اور انتہا پسند مسلم مبلغ آتے تھے۔
رائن ہارڈ گال نے بتایا کہ جرمن صوبے باڈن ورٹمبرگ سے مجموعی طور پر جو قریب 50 شدت پسند ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کی طرف سے لڑائی میں حصہ لینے کے لیے شام گئے، ان میں سے کم از کم 10 باقاعدگی سے اس مسجد اور اسلامی مرکز میں آتے تھے۔ ان کے مطابق ان 10 شدت پسندوں میں سے اب تک تین شام میں مارے جا چکے ہیں۔
اشٹٹ گارٹ میں وزارت داخلہ کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق اسی اسلامی مرکز پر آج سے پہلے اس سال مارچ میں بھی ایک چھاپہ مارا گیا تھا، جس دوران پولیس نے وہاں سے کئی کمپیوٹر، ڈیٹا اسٹوریج ڈسکس، اسمارٹ فون اور بہت سے دستاویزی شواہد اپنے قبضے میں لے لیے تھے۔
رائن ہارڈ گال نے الزام عائد کیا کہ جرمنی میں مسلمانوں کی یہ تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے نام سے سرگرم اس اسلام پسند گروہ کی حامی ہے، جو ’افراد اور املاک پر مذہبی وجوہات کی بنا پر مسلح حملے‘ کرتا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق وزارت داخلہ کے بیان میں مزید کہا گیا ہے، ’’اس تنظیم کے ذریعے نہ صرف دہشت گرد گروہوں کے لیے مالی عطیات جمع کیے جاتے تھے بلکہ شامی تنازعے میں لڑنے کے لیے جہادی عناصر بھی بھرتی کیے جاتے تھے۔ یہ تنظیم اور اس کے ارکان جہاد کے معنی کو اس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کرتے تھے کہ مذہبی وجوہات کی بناء پر دہشت گردی کی ترویج کی جا سکے۔‘‘