فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں آج کل خلیجی ریاست متحدہ عرب امارات کے دورے پر ہیں۔ انہوں نے اپنے اس دورے کے دوران عسکری اور ثقافتی تعلقات پر فوکس رکھا۔
اشتہار
فرانسیسی صدر کا کہنا ہے کہ بظاہر شام اورعراق میں دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو حالیہ مہینوں کے دوران مختلف مقامات پر مسلسل شکست کا سامنا رہا ہے لیکن ابھی بھی جہادی برسرپیکار ہیں۔ ایمانوئل ماکروں نے اس تناظر میں مزید کہا کہ جہادیوں کے خلاف مسلح جد و جہد اور جنگ جاری رکھی جائے گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ابو ظہبی میں فرانسیسی نیوی کے دستوں کے ساتھ ملاقات میں کیا۔
پورٹ زید کے نیول بیس پر فرانسیسی صدر نے کہا کہ اسلامک اسٹیٹ کو اُس کے خودساختہ دارالخلافہ الرقہ میں شکست دی جا چکی ہے اور بہت جلد سارے عراق اور شام میں اس جہادی تنظیم کو مکمل شکست سے دوچار کر دیا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کئی سالوں سے قائم مسلح عسکری گروپوں کے خلاف عسکری جد و جہد جاری رکھی جائے گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ دہشت گرد گروپوں کے ساتھ نمٹنے سے ہی اس خطے کی ترقی اور مسائل کا حل ممکن ہے۔
متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابُوظہبی کے قریب پورٹ زید پر فرانسیسی نیول بیس IMFEAU واقع ہے۔ فرانسیسی حکومت نے یہ بحری فوجی مرکز سن 2009 میں قائم کیا تھا۔ فرانسیسی سیلرز سے خطاب کرتے ہوئے صدر ماکروں نے اس بیس کو دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف جاری عسکری کارروائیوں میں انتہائی اہم قرار دیا ہے۔
اپنے اس دورے کے دوران فرانسیسی صدر نے خطے میں فرانس کے عسکری کردار اور تعاون کو عمومی طور پر مگر متحدہ عرب امارات کے ساتھ خاص طور پر اہم قرار دیا۔ متحدہ عرب امارات میں قائم ایک اور فوجی بیس الظفرہ پر بھی فرانسیسی فوجی متعین ہیں۔ الظفرہ بیس پر پانچ ہزار امریکی فوجی بھی مقیم ہیں۔
ایمانوئل ماکروں متحدہ عرب امارات میں مشہور آرٹ میوزیم لُوور کی ابو ظہبی شاخ کے افتتاح کے موقع پر وہاں گئے ہیں۔ فرانسیسی صدر نے لُوور ابوظہبی کو تہذیبوں کا سنگم قرار دیا۔ بنیادی لُوورآرٹ میوزیم فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں واقع ہے۔ ابوظہبی کی حکومت لوور نام استعمال کرنے پر 525 ملین ڈالر اگلے تیس برسوں تک ادا کرتی رہے گی۔
پیرس آپریشن: ہدف مرکزی ملزم اباعود تھا
فرانسیسی پولیس نے تیرہ نوبر کے دہشت گردانہ حملوں کے ملزمان کی گرفتاری کے لیے پیرس کے نواح میں ایک بڑا چھاپہ مارا ہے۔ اس دوران پولیس کو جہادیوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور متعدد افراد ہلاک ہو گئے۔
تصویر: Reuters/C. Hartmann
علی الصبح چھاپے
فرانسیسی پولیس نے بدھ کی صبح سینٹ ڈینیس کے علاقے کی ایک عمارت پر چھاپہ مارا۔ پولیس کو وہاں سے مسلح مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور ایک عورت نے خود کو بم سے اڑا دیا۔ پولیس کارروائی میں کم از کم دو عسکریت پسند ہلاک ہوئے۔
تصویر: Reuters/B. Tessier
عبدالحمید اباعود
اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ آیا پیرس میں حالیہ دہشت گردانہ حملوں کا ماسٹر مائنڈ عبدالحمید اباعود بھی ہلاک شدگان میں شامل ہے۔ بعض ذرائع ہلاکتوں کی تعداد زیادہ بتا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Dabiq
داعش کی بربریت
پیرس حملوں کی ذمہ داری شام اور عراق میں سرگرم شدت پسند اسلامی تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش نے قبول کر لی تھی۔ فرانس کی تاریخ میں دوسری عالمی جنگ کے بعد ہونے والی اس بدترین خونریزی میں ایک سو انتیس زائد افراد ہلاک اور بیسیوں زخمی ہوئے تھے۔ فرانس نے اس کارروائی کو اپنے خلاف داعش کا اعلان جنگ قرار دیا ہے۔
تصویر: Reuters/Ph. Wojazer
کم از کم دو جہادی ہلاک
بدھ کے روز ہونے والے پولیس آپریشن کے بعد فرانسیسی حکام نےایک خاتون بم بار سمیت دو ہلاکتوں اور تین مبینہ عسکریت پسندوں کی گرفتاری کی تصدیق کر دی، تاہم گرفتار کیے گئے افراد کی شناخت مخفی رکھی گئی ہے۔
تصویر: Reuters/C. Hartmann
مرکزی ملزمان
فرانس ہی میں نہیں بلکہ یورپ کے مختلف شہروں میں پیرس حملوں کے مفرور ملزم صالح عبدالسلام کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ عبدالسلام کی عمر چھبیس برس ہے۔ فرانسیسی میڈیا کے مطابق پیرس حملوں میں ایک نواں دہشت گرد بھی ملوث تھا، جس کی تلاش جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Police Nationale
یورپ بھر میں ہائی الرٹ
پیرس حملوں کے بعد یورپ کے اکثر ملکوں کی سکیورٹی میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ منگل کے روز ایئر فرانس کی دو پروازوں کو دہشت گردی کی افواہ کی بنیاد پر ٹیک آف کے بعد لینڈنگ کرنا پڑ گئی۔ بم کے خطرے کے پیش نظر ہینوور میں جرمنی اور ہالینڈ کے درمیان کھیلا جانے والا فٹ بال میچ بھی منسوخ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/abaca/E. de Malglaive
مزید چھاپے
فرانسیسی پولیس نے جنوب مغربی فرانس کے کئی علاقوں میں بھی چھاپے مارے ہیں۔ ان میں آری ایژ اور تولوز کے شہر نمایاں ہیں۔ دوسری جانب فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ پریس حملوں کے بعد لگائی گئی تین ماہ کی ایمرجنسی کے دوران کیے جانے والے سکیورٹی اقدامات پر ملکی حکام سے بات چیت کر رہیں ہیں۔ ان اقدامات کو منظوری کے لیے جمعرات انیس نومبر کے روز ملکی پارلیمان میں پیش کیا جائے گا۔