1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’داعش کے خلاف ڈاکٹر طاہر القادری کا جہاد‘

امتیاز احمد24 جون 2015

مذہبی رہنما ڈاکٹر طاہر القادری نے لندن میں ’انسداد دہشت گردی‘ کا نصاب پیش کیا ہے، جس کا مقصد داعش جیسے جہادی گروپوں کو دلائل کے ساتھ جواب دینا اور نوجوانوں کی ایسی تنظیموں میں شمولیت کو روکنا ہے۔

London Islamische Anti-Terrorismus Konferenz Muhammad Tahir-ul-Qadri
تصویر: picture-alliance/AP/M. Dunham

پاکستان کے معروف مذہبی رہنما اور شعلہ بیان خطیب محمد طاہر القادری کے مطابق ان کی خواہش ہے کہ نو سو صفحات پر مشتمل ان کا تیار کردہ نصاب نہ صرف مساجد اور اسلامی اداروں بلکہ برطانیہ بھر کے اسکولوں میں بھی پڑھایا جائے۔ اس نصاب میں طاہر القادری کی طرف سے انتہا پسندی کے خلاف مذہبی اور نظریاتی دلائل پیش کیے گئے ہیں۔ مذہبی تنظیم ’منہاج القرآن انٹرنیشنل‘ کے سربراہ کے مطابق ان کی یہ تصنیف خاص طور پر اسلامی عسکریت پسندی کے خلاف جنگ کے لیے وقف کی گئی ہے۔

’خودکش حملہ آور جہنم میں جائیں گے‘

اس سے قبل ڈاکٹر طاہر القادری نے سن دو ہزار دس میں بھی ایک فتویٰ جاری کیا تھا، جس میں خودکُش حملہ آوروں کو نہ صرف غیرمسلم قرار دیا گیا تھا بلکہ انہیں اسلام کے دشمن بھی کہا گیا تھا۔ اس نصاب کے مطابق بھی ’خودکُش حملہ آور جہنم میں جائیں گے‘۔ نئے نصاب میں ڈاکٹر طاہر القادری نے تین صفحات داعش سے متعلق لکھے ہیں۔ ان کا اپنے دلائل پیش کرتے ہوئے کہنا ہے کہ اسلامی نظام قانون کے تحت داعش اور اس جیسے دیگر دہشت گرد گروپوں کا قطعاﹰ کوئی قانونی وجود ہو ہی نہیں سکتا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا کہنا ہے کہ آئی ایس یا دولت اسلامیہ جیسے گروہ مسلم ریاستوں اور عوامی نظام کے خلاف مسلح بغاوت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’داعش انسانیت کی دشمن ہے۔‘‘

برطانیہ کے ایک ریڈیو کو انٹرویو میں طاہر القادری کا کہنا تھا کہ ’منہاج القرآن‘ کے نمائندوں کو برطانوی اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں پر امن اسلام کی تشہیر اور دہشت گردی کے خلاف موقف اختیار کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ طاہر القادری کا کہنا تھا کہ بنیاد پرستی سے متعلق تمام سطحوں پر بحث مباحثہ ہونا چاہیے، ’’مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تک اس مسئلے سے متعلق مذہبی اور نظریاتی سطح پر بات چیت نہیں ہوئی۔ ابھی تک ہم نے اسے سیاسی، سماجی اور اقتصادی مسئلے کے طور پر لیا ہے۔ ایسے موضوعات مسلمانوں کے لیے لازمی مضمون قرار دیے جانے چاہییں جبکہ غیرمسلموں کے لیے یہ اختیاری ہونے چاہییں۔‘‘

اندازوں کے مطابق برطانیہ کے تقریباﹰ سات سو شہری شام اور عراق میں سرگرم جہادی گروپ داعش میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں جبکہ داعش میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد واپس برطانیہ پہنچنے والوں کی تعداد بھی تقریباﹰ تین سو پچاس بنتی ہے۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون متعدد مرتبہ احتجاجاﹰ کہہ چکے ہیں کہ مسلم برادری کی طرف سے شدت پسند جہادی تنظیموں کی مذمت نہیں کی جاتی۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں