داعش کے ’دارالخلافہ‘ الرقہ میں جہادیوں پر شدید حملے
17 جولائی 2017
امریکی حمایت یافتہ جنگجوؤں نے شام میں داعش کے خود ساختہ ’دارالخلافہ‘ الرقہ کے مرکز میں حملے کیے ہیں۔ لڑائی کے باعث عام شہریوں نے اپنی زندگیاں بچانے کے لیے وہاں سے بڑی تعداد میں نقل مکانی شروع کر دی ہے۔
اشتہار
امریکی حمایت یافتہ سیرین ڈیموکریٹک فورسز نے چھ جون کو داعش کے زیر قبضہ اس اہم علاقے کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کے لیے جنگی آپریشن کا آغاز کیا تھا۔ اس طرح اب تک امریکی حمایت یافتہ جنگجو متعدد علاقوں پر قبضہ کر چکے ہیں۔ امریکا اور اس کی اتحادی فورسز کے مطابق کرد باغیوں اور سنی قبائل پر مشتمل سیرین ڈیموکریٹک فورسز کا گروپ شام میں داعش کے خلاف سب سے مؤثر گروپ ثابت ہو رہا ہے۔
سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق پیر کے روز داعش اور امریکی حمایت یافتہ باغیوں کے مابین الرقہ کے مرکز اور جنوب مغربی علاقے یرموک میں شدید جھڑپیں ہوئی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق الرقہ کے قدیم مرکزی حصے میں شدید لڑائی جاری ہے اور جنگجوؤں نے الرقہ کی صدیوں پرانی مسجد کے ارد گرد پوزیشنیں سنبھال رکھی ہیں۔
امریکی حمایت یافتہ جنگجوؤں کے مطابق اتوار کے روز سے اب تک داعش کے گیارہ جنگجو ہلاک ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب داعش سے منسلک نیوز ایجنسی عماق کے مطابق امریکی حمایت یافتہ 14 فائٹرز کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔ تاہم فریقین کے دعوؤں کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں ہے۔
الرقہ میں لڑائی کا سلسلہ ایک ایسے وقت شروع ہوا ہے، جب ایک ہفتے پہلے ہی عراق میں داعش کے زیر قبضہ سب سے بڑے شہر موصل پر ملکی فوج نے دوبارہ قبضہ حاصل کیا ہے۔
الرقہ میں داعش کی ناکامی اس تنظیم کے لیے پورے علاقے میں بہت بڑا دھچکا ہوگا۔ دوسری جانب عراقی سرحد سے منسلک شام کا دیر الزور نامی علاقہ ابھی تک داعش کے قبضے میں ہی ہے۔ داعش کے خلاف لڑنے والے کرد فائٹرز کو امریکا اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے فضائی حملوں کی مدد بھی حاصل ہے جبکہ ان کرد باغیوں کو اسلحہ بھی مغربی حکومتیں فراہم کر رہی ہیں۔
شام میں اسد مخالف احتجاجی مظاہروں کا آغاز مارچ سن 2011 میں ہوا تھا۔ یہی احتجاجی مظاہرے بعد ازاں خانہ جنگی میں بدل گئے اور اب تک وہاں ہونے والی لڑائی کے نتیجے میں تین لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ شام میں بے گھر اور وہاں سے نقل مکانی کر جانے والوں کی تعداد بھی لاکھوں میں بنتی ہے۔
داعش کے خلاف برسر پیکار ایران کی کُرد حسینائیں
ایران کی تقریباﹰ دو سو کرد خواتین عراق کے شمال میں داعش کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ یہ کردوں کی فورس پیش مرگہ میں شامل ہیں اور انہیں امریکی افواج کی حمایت بھی حاصل ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق جب بھی داعش کے عسکریت پسندوں کی طرف سے ایران کی ان کرد خواتین پر مارٹر گولے برسائے جاتے ہیں تو سب سے پہلے یہ ان کا جواب لاؤڈ اسپیکروں پر گیت گا کر دیتی ہیں۔ اس کے بعد مشین گنوں کا رخ داعش کے ٹھکانوں کی طرف کر دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
اکیس سالہ مانی نصراللہ کا کہنا ہے کہ وہ گیت اس وجہ سے گاتی ہیں تاکہ داعش کے عسکریت پسندوں کو مزید غصہ آئے، ’’اس کے علاوہ ہم ان کو بتانا چاہتی ہیں کہ ہمیں ان کا خوف اور ڈر نہیں ہے۔‘‘ تقریباﹰ دو سو ایرانی کرد خواتین ایران چھوڑ کر عراق میں جنگ کر رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
یہ کرد خواتین چھ سو جنگ جووں پر مشتمل ایک یونٹ کا حصہ ہیں۔ اس یونٹ کا کردستان فریڈم پارٹی سے اتحاد ہے۔ کرد اسے ’پی اے کے‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
چھ سو جنگ جووں پر مشتمل یہ یونٹ اب عراقی اور امریکی فورسز کے زیر کنٹرول اس یونٹ کے ساتھ ہے، جو موصل میں داعش کے خلاف برسر پیکار ہے۔ کرد جنگ جووں کا اپنے ایک ’آزاد کردستان‘ کے قیام کا بھی منصوبہ ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
مستقبل میں کرد جنگ جو شام، عراق، ترکی اور ایران کے چند حصوں پر مشتمل اپنا وطن بنانا چاہتے ہیں لیکن ان تمام ممالک کی طرف سے اس منصوبے کی شدید مخالفت کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی کرد باغیوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ایک کرد خاتون جنگ جو کا کہنا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے لڑ رہی ہیں۔ وہ سرزمین چاہیے ایران کے قبضے میں ہو یا عراق کے وہ اپنی سر زمین کے لیے ایسے ہی کریں گی۔ ان کے سامنے چاہے داعش ہو یا کوئی دوسری طاقت اوہ اپنی ’مقبوضہ سرزمین‘ کی آزادی کے لیے لڑیں گی۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
اس وقت یہ خواتین مرد کردوں کے ہم راہ عراق کے شمال میں واقع فضلیہ نامی ایک دیہات میں لڑ رہی ہیں۔ ایک بتیس سالہ جنگ جو ایوین اویسی کا کہنا تھا، ’’یہ حقیقت ہے کہ داعش خطرناک ہے لیکن ہمیں اس کی پروا نہیں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ایک جنگ جو کا کہنا تھا کہ اس نے پیش مرگہ میں شمولیت کا فیصلہ اس وقت کیا تھا، جب ہر طرف یہ خبریں آ رہی تھیں کہ داعش کے فائٹرز خواتین کے ساتھ انتہائی برا سلوک کر رہے ہیں، ’’میں نے فیصلہ کیا کہ ان کو میں بھی جواب دوں گی۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ان خواتین کی شمالی عراق میں موجودگی متنازعہ بن چکی ہے۔ ایران نے کردستان کی علاقائی حکومت پر ان خواتین کو بے دخل کرنے کے لیے دباؤ بڑھا دیا ہے۔ سن دو ہزار سولہ میں کرد جنگ جووں کی ایرانی دستوں سے کم از کم چھ مسلح جھڑپیں ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ان کے مرد کمانڈر حاجر باہمانی کا کے مطابق ان خواتین کے ساتھ مردوں کے برابر سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں ان خواتین پر فخر ہے۔ ان خواتین کو چھ ہفتوں پر مشتمل سنائپر ٹریننگ بھی فراہم کی گئی ہے۔