داعش کے سابق جنگجوؤں کو کوئی قبول کرنے پر تیار نہیں
6 نومبر 2019
ترکی داعش کے سابق حامیوں کو ان کے آبائی یورپی ممالک واپس بھیجنا چاہتا ہے۔ یورپ انقرہ حکومت کے اس اعلان کے لیے تیار نہیں تھا۔ ابھی تک یہ فیصلہ نہیں ہو پایا کہ آئی ایس کے جنگجوؤں اور ان کے خاندانوں کے ساتھ کیا کیا جائے؟
اشتہار
یہ وہ لوگ ہیں، جنہیں کوئی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان لوگوں نے ماضی میں دہشت گرد تنظیم دولت اسلامیہ یا داعش کا ساتھ دیا تھا اور آج یہ شمالی شام کے کُرد علاقوں میں قید ہیں۔ ترک جیلوں میں بھی ایسے افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ ابھی حال ہی میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے ترجمان نے کہا تھا کہ وہ آئی ایس کا ساتھ دینے والے بیس جرمن شہریوں کو ملک بدر کرنا چاہتے ہیں۔
ترک وزیر داخلہ سلیمان صوئلو نے اس صورتحال کو کچھ یوں واضح کیا: ترک جیلوں میں آئی ایس کے بارہ سو کے قریب غیر ملکی جنگجو قید ہیں۔ ایسے ہی کچھ اور ملک بدری کے لیے قائم مراکز میں موجود ہیں۔ صوئلو نے اعلان کیا کہ ترکی ان جنگجوؤں کو ان کے آبائی ممالک واپس بھیج دے گا۔
مسئلہ حل کیسے ہو گا؟
یہ مسئلہ نیا نہیں ہے۔ تاہم یورپی حکومتوں نے ابھی تک اسے نظر انداز ہی کیا ہے۔ شام اور عراق میں داعش کی اس خود ساختہ خلافت کے خاتمے کے بعد سے خاص طور پر شمالی شام کے قید خانے آئی ایس کے سابق جنگوؤں، ان کی بیگمات اور ان کے بچوں سے بھر گئے۔ بیلجیم کے ایک ادارے کے مطابق ان میں سے کم از کم پانچ سو مرد اور خواتین اور تقریباً 750 بچوں کا تعلق یورپی ممالک سے ہے۔ اس دوران ان افراد کو واپس قبول کرنے کی صدائیں کئی مرتبہ سنائی دے چکی ہیں۔ ایسے مطالبے کرد نیم خود مختار علاقے کی انتظامیہ کی جانب سے بھی کے گئے تھے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فروری میں ایک ٹویٹ کے ذریعے تمام یورپی ممالک سے اپنے اپنے شہریوں کو واپس قبول کرنے کے لیے کہا تھا۔
جرمن موقف
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے ترکی کی جانب سے آئی ایس کے جنگجوؤں کی ملک بدری کے اعلان کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے، ''سب سے پہلے تو قانوناً یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا یہ واقعی جرمن شہری ہیں۔‘‘ اس موقع پر تاہم انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ جرمنی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو واپس قبول کرے۔ ان کے بقول،'' ہم یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں اور خاص طور پر آئی ایس کے جنگجوؤں کے بارے میں ہمارے پاس کافی معلومات موجود ہوں۔ تاکہ انہیں کسی جرمن عدالت میں پیش کیا جا سکے اور انہیں قانون کے مطابق ان کے کیے کی سزا دی جا سکے۔‘‘
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Souleiman
7 تصاویر1 | 7
غیر معروف اقدام
تازہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو آئی ایس کے جنگجوؤں کو قبول کرنے کے فیصلے سے سیاستدانوں کی ساکھ کو نقصان پہنچنے کا امکان ہو گا۔ اس طرح کے اقدامات یورپ کے کئی ممالک میں انتہائی غیر معروف تصور کیے جاتے ہیں اور ان کی وضاحت بھی بہت مشکل مرحلہ ثابت ہوتی ہے۔ اور اگر واپس آنے والے کسی بھی شہری نے کوئی دہشت گردانہ کارروائی کر دی تو ایسی صورت میں مخالفت اور بھی بڑھ جائے گی۔ اسی طرح دیگر یورپی حکومتیں اس مسئلے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
داعش کی خود ساختہ خلافت کے خاتمے کے بعد اٹلی یورپی یونین کا وہ ملک ہے، جس نے آئی ایس کے ایک سابقہ جنگجو کو اپنے ہاں واپس قبول کیا تھا۔ یورپی یونین سے آئی ایس کا ساتھ دینے کے لیے سب سے زیادہ افراد فرانس سے گئے تھے۔ تاہم فرانس ایسے جنگجوؤں کے بچوں پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے اور اب ایک سو کے قریب بچے فرانس واپس قبول کر چکا ہے۔