عراقی فورسز نے مغربی موصل میں صوبائی حکومت کے ہیڈ کوارٹرز پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ دوسری جانب عراقی وزیر اعظم بھی اس آپریشن کی پیش رفت دیکھنے کے لیے موصل پہنچ گئے ہیں۔
اشتہار
عراقی فورسز نے ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر موصل کے مغربی حصے میں مزید کامیابیاں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ امریکی عسکری حکام کے مطابق داعش کے غیرملکی عسکریت پسند یہ علاقہ چھوڑ کر فرار ہونے کی کوششوں میں ہیں۔ موصل کے مغربی حصے پر قبضے کے لیے اس فوجی آپریشن کا آغاز انیس فروری کو کیا گیا تھا لیکن خراب موسم اور داعش کی طرف سے مزاحمت کے بعد اس میں پیش رفت سست روی کا شکار ہو گئی تھی۔
اتوار کے روز سے عراقی فورسز اس حصے پر قبضے کے لیے اپنی بھرپور کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ مغربی موصل میں جاری اس جنگ کی وجہ سے تقریباﹰ پچاس ہزار افراد یہ علاقہ چھوڑ کر فرار ہو چکے ہیں۔
دریں اثناء عراقی فورسز نے اس میوزیم پر بھی قبضہ کر لیا ہے، جہاں داعش کے عسکریت پسندوں نے قیمتی نوادرات کو تباہ کرتے ہوئے ویڈیوز بنوائی تھیں۔ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی بھی ملکی سکیورٹی فورسز کی طرف سے پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے موصل پہنچ گئے ہیں۔ عراقی وزیر اعظم ملکی مسلح افواج کے کمانڈر انچیف بھی ہیں۔
عراقی فورسز کو اپنے اس فوجی مشن میں امریکا اور اس کے اتحادی ملکوں کی عسکری حمایت بھی حاصل ہے۔ زیادہ تر فضائی حملے امریکی فضائیہ کی مدد سے کیے جا رہے ہیں جبکہ امریکی فوجی مشیر بھی اگلے مورچوں میں عراقی فورسز کو مدد فراہم کر رہے ہیں۔
امریکا کے اعلیٰ فوجی حکام کا کہنا ہے کہ مغربی موصل میں داعش کی طرف سے کی جانے والی مزاحمت غیرمنظم ہے اور غیر ملکی جنگجو وہاں سے فرار ہونے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ امریکی فضائیہ کے بریگیڈیئر جنرل میتھیو آئیلر کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حکومتی فورسز کو شہر میں ’’سخت مزاحمت‘‘ کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن وہ غالب آ جائیں گی۔
موصل کو دریائے دجلہ نے تقسیم کر رکھا ہے۔ عراقی فورسز نے تین ماہ سے زائد کی لڑائی کے بعد جنوری میں موصل کے مغربی حصے پر تو قبضہ کر لیا تھا لیکن دریائے دجلہ کی دوسری جانب مغربی حصے کا کنٹرول ابھی تک داعش کے ہاتھوں میں ہے۔ امریکی جنرل کا کہنا تھا، ’’کھیل ختم ہو چکا ہے۔ وہ اپنی جنگ ہار چکے ہیں اور جو آپ اس وقت دیکھ رہے ہیں، وہ وقت حاصل کرنے کے طریقے ہیں۔‘‘
امریکی کمانڈر کے مطابق مغربی موصل کی لڑائی سے پہلے ہی داعش کے متعدد آپریشنل لیڈر مار دیے گئے تھے۔ داعش کے خودکش حملہ آوروں کو ابھی بھی خطرہ تصور کیا جا رہا ہے لیکن اب فی الحال ایسے دس حملہ آوروں میں سے ایک ہی کامیاب ہو رہا ہے۔
عراق: امریکی جنگ کے دس سال بعد
تصویر: DW/K. Zurutuza
ڈراؤنا خواب جاری
گزشتہ دس برسوں میں تعمیر نو کے اربوں ڈالر کے منصوبوں کا اعلان کیا گیا لیکن ایک عام شہری کو آج بھی لوڈ شیڈنگ اور صاف پانی کی قلت کا سامنا ہے۔ ملک کا بنیادی ڈھانچہ آج بھی کمزور ہے، بدعنوانی عروج پر ہے، غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
ذاتی گھر کا خواب
جنگ اور عدم استحکام کی وجہ سے عراقی پناہ گزینوں کی تعداد میں حیران کن اضافہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اندورن ملک بے گھر ہونے والے عراقیوں کی تعداد 1.2 ملین بنتی ہے۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
بم دھماکے روز مرہ کا معمول
عراق کی مجموعی آبادی کا پانچواں حصہ دارالحکومت بغداد میں رہتا ہے۔ 33 ملین آبادی والے اس شہر میں آئے دن بم دھماکے ہوتے رہتے ہیں۔ شہریوں کو روزانہ درجنوں چیک پوائنٹس پر تلاشی کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
اموات اور تباہی
عراق میں ہلاکتوں کے بارے میں اعداد و شمار جمع کرنے والے دارے ’باڈی اکاؤنٹ‘ کے مطابق صرف گزشتہ برس ہلاک ہونے والے عراقیوں کی تعداد 4568 تھی۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
خواتین کی مشکلات
عراق میں صرف چالیس فیصد خواتین پڑھ لکھ سکتی ہیں۔ دس سالہ بد امنی کی وجہ سے بیواؤں کی تعداد تمام تر پرانے ریکارڈ توڑ چُکی ہے۔ مالی مشکلات کی وجہ سے لڑکیوں کی کم عمری میں ہی شادیوں کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
بارودی سرنگیں
لوگوں کی زندگیوں کو اب بھی بارودی سرنگوں اور غیر تباہ شدہ دھماکہ خیز مواد سے خطرات لاحق ہیں۔ ان کی وجہ سے ملک کو آلودگی جیسے بڑے مسئلے کا بھی سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے ذرائع کے مطابق، 2.7 ملین سے زائد لوگ آلودہ ماحول میں رہ رہے ہیں۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
یورنیم کے تابکار عناصر
طبی اعداد و شمار کے مطابق عراق میں کینسر اور لیوکیمیا جیسے موذی عارضوں کیں حیران کن اضافہ ہوا ہے۔ نومولود بچوں کی اموات کی شرح ہیروشیما اور ناگاساکی سے بھی زیادہ ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ یورنیم کے تابکارعناصر ہیں۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
سکیورٹی خدشات
حکومتی حمایت یافتہ مختلف قبائلی رہنماؤں نے اپنے علاقوں میں امن برقرار رکھنے کے لیے سن 2005ء میں 'عراق کے بیٹوں' کے نام سے ایک نیم فوجی گروپ قائم کیا لیکن کم اسلحے اور حکومتی کمزوریوں کی وجہ سے یہ القاعدہ کا اہم ہدف بنا ہوا ہے۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
عرب بہار کا آغاز ؟
دسمبر 2012 ءکے بعد سے عراق کے سنی اکثریتی علاقوں کے ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر احتجاجی مظاہرے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس احتجاجی تحریک کو نام نہاد عرب بہار کا حصہ کہا جاتا ہے۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
بہتر مستقبل کی لڑائی؟
سُنی ملیشیا گروپ ’’1920ء ریولوشن بریگیڈ‘ وہ مسلح گروپ ہے، جو موجودہ حکومت کے خلاف لڑائی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس گروپ کے چیف کمانڈر کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’جھوٹی جنگ مسلط کرنے والے ممالک کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ تعمیرنو میں مدد کریں۔‘‘