جرمن حکومت ایسے ایک سو ساٹھ افراد کی کھوج میں ناکام ہو گئی ہے، جو ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی حمایت میں شام اور عراق گئے تھے۔ ان لاپتہ افراد کے بارے میں ایک رپورٹ ایک جرمن اخبار میں شائع ہوئی ہے۔
اشتہار
جرمن اخبار ڈی ویلٹ ام زونٹاگ کی رپورٹ کے مطابق دہشت گرد تنظیم 'اسلامک اسٹیٹ‘ کی حمایت کرنے والے ایک سو ساٹھ جرمن شہریوں کے بارے میں اس وقت کوئی معلومات دستیاب نہیں ہے۔ یہ افراد مبینہ جنگی کارروائیوں میں شرکت کے لیے عراق اور شام گئے تھے۔
جرمن اخبار کی یہ رپورٹ ملکی وزارت داخلہ کے اُن اعداد و شمار پر مبنی ہے جو فری ڈیموکریٹک پارٹی کے پارلیمنٹ میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں مرتب کی گئی تھی۔ جرمن وزارت داخلہ کی وضاحت کے مطابق داعش کی حمایت میں جانے والے بہت سارے جرمن جہادیوں کی مسلح کارروائیوں کے دوران ہلاکت بھی ہوئی ہے۔
جرمن وزارت داخلہ نے ملکی پارلیمنٹ بنڈس ٹاگ کو بتایا کہ یہ ممکن ہے کہ کئی جرمن شہری جہادی سرگرمیوں کے بعد بچ کر روپوش ہو گئے ہوں۔ اس کی بھی وضاحت کی گئی کہ یہ ممکن نہیں کہ شام اور عراق سے واپس آنے والے جرمن شہری خاموشی کے ساتھ ملک داخل ہو گئے ہوں۔ جرمن حکومت نے ایسے افراد کی نشاندہی کے لیے کئی انضباطی اقدامات اٹھا رکھے ہیں۔
فری ڈیموکریٹک پارٹی کی سیکرٹری جنرل لنڈا ٹوئٹے برگ نے اخبار ڈی ویلٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ خطرے کی بات ہے کہ شام اور عراق سے جرمن شہری جنگی کارروائیوں میں شرکت کے بعد اپنے ملک میں داخل ہو چکے ہیں اور اس کی وجہ یورپی یونین کے سرحدوں کی حفاظت کے ناقص ضابطے اور انتظامات ہیں۔ ٹوئٹے برگ نے میرکل حکومت پر ایسے جہادیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہ کرنے پر تنقید بھی کی ہے۔
جرمن حکومت کے مطابق داعش کی مسلح سرگرمیوں میں شرکت کے لیے ایک ہزار پچاس جرمن شہری مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ یہ افراد سن 2013 میں'اسلامک اسٹیٹ‘ میں شمولیت کے لیے گئے تھے۔ ان میں سے ایک تہائی جب واپس آئے تو بعض کو ملکی قوانین کے تحت سزائیں سنائی گئی جب کہ چند ایسے شہریوں کو بحالی کے پروگرام میں شامل کیا گیا تھا۔
نتالی ایلکس مُؤلر (عابد حسین)
جرمنی میں دہشت گردی کے منصوبے، جو ناکام بنا دیے گئے
گزشتہ اٹھارہ ماہ سے جرمن پولیس نے دہشت گردی کے متعدد منصوبے ناکام بنا دیے ہیں، جو بظاہر جہادیوں کی طرف سے بنائے گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Sohn
لائپزگ، اکتوبر سن دو ہزار سولہ
جرمن شہر لائپزگ کی پولیس نے بائیس سالہ شامی مہاجر جابر البکر کو دو دن کی تلاش کے بعد گرفتار کر لیا تھا۔ اس پر الزام تھا کہ وہ برلن کے ہوائی اڈے کو نشانہ بنانا چاہتا تھا۔ اس مشتبہ جہادی کے گھر سے دھماکا خیز مواد بھی برآمد ہوا تھا۔ تاہم گرفتاری کے دو دن بعد ہی اس نے دوران حراست خودکشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Willnow
آنسباخ، جولائی سن دو ہزار سولہ
جولائی میں پناہ کے متلاشی ایک شامی مہاجر نے آنسباخ میں ہونے والے ایک میوزک کنسرٹ میں حملہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اگرچہ اسے کنسرٹ کے مقام پر جانے سے روک دیا گیا تھا تاہم اس نے قریب ہی خودکش حملہ کر دیا تھا، جس میں پندرہ افراد زخمی ہو گئے تھے۔ اس کارروائی میں وہ خود بھی مارا گیا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/D. Karmann
وُرسبُرگ، جولائی سن دو ہزار سولہ
اکتوبر میں ہی جرمن شہر وُرسبُرگ میں ایک سترہ سالہ مہاجر نے خنجر اور کلہاڑی سے حملہ کرتے ہوئے ایک ٹرین میں چار سیاحوں کو شدید زخمی کر دیا تھا۔ پولیس کی جوابی کارروائی میں یہ حملہ آور بھی ہلاک ہو گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Hildenbrand
ڈوسلڈورف، مئی سن دو ہزار سولہ
مئی میں جرمن پولیس نے تین مختلف صوبوں میں چھاپے مارتے ہوئے داعش کے تین مستبہ شدت پسندوں کو گرفتار کر لیا تھا۔ پولیس کے مطابق ان میں سے دو جہادی ڈوسلڈوف میں خود کش حملہ کرنا چاہتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Hitij
ایسن، اپریل سن دو ہزار سولہ
رواں برس اپریل میں جرمن شہر ایسن میں تین مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے ایک سکھ ٹیمپل پر بم حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں تین افراد زخمی ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kusch
ہینوور، فروری سن دو ہزار سولہ
جرمنی کے شمالی شہر میں پولیس نے مراکشی نژاد جرمن صافیہ ایس پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے پولیس کے ایک اہلکار پر چاقو سے حملہ کرتے ہوئے اسے زخمی کر دیا تھا۔ شبہ ظاہر کیا گیا تھا کہ اس سولہ سالہ لڑکی نے دراصل داعش کے ممبران کی طرف سے دباؤ کے نتیجے میں یہ کارروائی کی تھی۔
تصویر: Polizei
برلن، فروری دو ہزار سولہ
جرمن بھر میں مختلف چھاپہ مار کارروائیوں کے دوران پولیس نے تین مشتبہ افراد کو حراست میں لیا تھا، جن پر الزام تھا کہ وہ برلن میں دہشت گردانہ کارروائی کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ ان مشتبہ افراد کو تعلق الجزائر سے تھا اور ان پر شبہ تھا کہ وہ داعش کے رکن ہیں۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
اوبراُرزل، اپریل سن دو ہزار پندرہ
گزشتہ برس فروری میں فرینکفرٹ میں ایک سائیکل ریس کو منسوخ کر دیا گیا تھا کیونکہ پولیس کو اطلاع ملی تھی کہ اس دوران شدت پسند حملہ کر سکتے ہیں۔ تب پولیس نے ایک ترک نژاد جرمن اور اس کی اہلیہ کو گرفتار کیا تھا، جن کے گھر سےبم بنانے والا دھماکا خیز مواد برآمد ہوا تھا۔