ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای اور ہزاروں ایرانی شہریوں نے انقلابی گارڈز کے ایک نوجوان سپاہی کی شام میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے ہاتھوں ہلاکت کا سوگ منایا۔ داعش نے اس ایرانی نوجوان کا سر قلم کر دیا تھا۔
اشتہار
عراق اور شام میں ایرانی فورسز خصوصاﹰ پاس دارانِ انقلاب سرگرم ہیں اور ایران کو ان دونوں ممالک میں جانی نقصان کا بھی سامنا ہے۔
شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے محسن حجاجی نامی اس 25 سالہ ایرانی فوجی کا سر قلم کر دیا تھا، تاہم ایران میں داخلی طور پر اٹھنے والی وہ آوازیں جو دیگر ممالک خصوصاﹰ شام میں ایرانی عسکری مداخلت کے بعد سے سنائی دے رہی تھیں، محسن حجاجی کے قتل کے بعد ملک بھر میں پائے جانے والے شدید غم و غصے کی وجہ سے خاموش ہو گئی ہیں۔
تہران میں اس نوجوان کے ایرانی پرچم میں لپٹے ہوئے تابوت کے ساتھ آخری رسومات میں آیت اللہ علی خامنہ ای بھی شریک ہوئے۔ اس موقع پر سوگواران نے سیاہ لباس پہن رکھے تھے، جب کہ اس تابوت پر پھولوں کی پتیاں بھی نچھاور کی جا رہی تھیں۔
داعش کے خلاف برسر پیکار ایران کی کُرد حسینائیں
ایران کی تقریباﹰ دو سو کرد خواتین عراق کے شمال میں داعش کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ یہ کردوں کی فورس پیش مرگہ میں شامل ہیں اور انہیں امریکی افواج کی حمایت بھی حاصل ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق جب بھی داعش کے عسکریت پسندوں کی طرف سے ایران کی ان کرد خواتین پر مارٹر گولے برسائے جاتے ہیں تو سب سے پہلے یہ ان کا جواب لاؤڈ اسپیکروں پر گیت گا کر دیتی ہیں۔ اس کے بعد مشین گنوں کا رخ داعش کے ٹھکانوں کی طرف کر دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
اکیس سالہ مانی نصراللہ کا کہنا ہے کہ وہ گیت اس وجہ سے گاتی ہیں تاکہ داعش کے عسکریت پسندوں کو مزید غصہ آئے، ’’اس کے علاوہ ہم ان کو بتانا چاہتی ہیں کہ ہمیں ان کا خوف اور ڈر نہیں ہے۔‘‘ تقریباﹰ دو سو ایرانی کرد خواتین ایران چھوڑ کر عراق میں جنگ کر رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
یہ کرد خواتین چھ سو جنگ جووں پر مشتمل ایک یونٹ کا حصہ ہیں۔ اس یونٹ کا کردستان فریڈم پارٹی سے اتحاد ہے۔ کرد اسے ’پی اے کے‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
چھ سو جنگ جووں پر مشتمل یہ یونٹ اب عراقی اور امریکی فورسز کے زیر کنٹرول اس یونٹ کے ساتھ ہے، جو موصل میں داعش کے خلاف برسر پیکار ہے۔ کرد جنگ جووں کا اپنے ایک ’آزاد کردستان‘ کے قیام کا بھی منصوبہ ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
مستقبل میں کرد جنگ جو شام، عراق، ترکی اور ایران کے چند حصوں پر مشتمل اپنا وطن بنانا چاہتے ہیں لیکن ان تمام ممالک کی طرف سے اس منصوبے کی شدید مخالفت کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی کرد باغیوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ایک کرد خاتون جنگ جو کا کہنا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے لڑ رہی ہیں۔ وہ سرزمین چاہیے ایران کے قبضے میں ہو یا عراق کے وہ اپنی سر زمین کے لیے ایسے ہی کریں گی۔ ان کے سامنے چاہے داعش ہو یا کوئی دوسری طاقت اوہ اپنی ’مقبوضہ سرزمین‘ کی آزادی کے لیے لڑیں گی۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
اس وقت یہ خواتین مرد کردوں کے ہم راہ عراق کے شمال میں واقع فضلیہ نامی ایک دیہات میں لڑ رہی ہیں۔ ایک بتیس سالہ جنگ جو ایوین اویسی کا کہنا تھا، ’’یہ حقیقت ہے کہ داعش خطرناک ہے لیکن ہمیں اس کی پروا نہیں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ایک جنگ جو کا کہنا تھا کہ اس نے پیش مرگہ میں شمولیت کا فیصلہ اس وقت کیا تھا، جب ہر طرف یہ خبریں آ رہی تھیں کہ داعش کے فائٹرز خواتین کے ساتھ انتہائی برا سلوک کر رہے ہیں، ’’میں نے فیصلہ کیا کہ ان کو میں بھی جواب دوں گی۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ان خواتین کی شمالی عراق میں موجودگی متنازعہ بن چکی ہے۔ ایران نے کردستان کی علاقائی حکومت پر ان خواتین کو بے دخل کرنے کے لیے دباؤ بڑھا دیا ہے۔ سن دو ہزار سولہ میں کرد جنگ جووں کی ایرانی دستوں سے کم از کم چھ مسلح جھڑپیں ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ان کے مرد کمانڈر حاجر باہمانی کا کے مطابق ان خواتین کے ساتھ مردوں کے برابر سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں ان خواتین پر فخر ہے۔ ان خواتین کو چھ ہفتوں پر مشتمل سنائپر ٹریننگ بھی فراہم کی گئی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
10 تصاویر1 | 10
اس نوجوان ایرانی فوجی کی آخری رسومات میں موجودہ اور سابقہ حکومتی عہدیداروں کے ساتھ ساتھ ایرانی پارلیمان کے اسپیکر علی لاریجانی اور سابق صدر محمود احمدی نژاد نے بھی شرکت کی۔ اس سوگوار تقریب میں بھی سیاسی رنگ کچھ اس طرح دکھائی دیا کہ الزام ’اسرائیل اور امریکا‘ پر عائد کرتے ہوئے، ’امریکا مردہ باد‘ اور ’اسرائیل مردہ باد‘ کے نعرے بھی لگائے گئے۔
تارکین وطن کے بارے میں پانچ اہم حقائق
01:27
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کےمطابق گو کہ یہ ایک تعزیتی تقریب تھی، تاہم اس پر سیاسی رنگ اس قدر غالب تھا کہ اس تقریب میں ایرانی مذہبی رہنما علی رضا پانہیان نے کہا، ’’ہم حجاجی کے خون کی قسم کھاتے ہیں کہ جب تک اسرائیل کو برباد نہیں کر دیتے، چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ اسرائیل، ہم حجاجی کے سر کی قسم کھاتے ہیں کہ ہم تمہارے رہنماؤں کے سر قلم کریں گے۔ پاس داران انقلاب اپنے میزائلوں کو اسرائیل کو صفحہء ہستی سے مٹانے کے لیے تیار کر لو۔‘‘
واضح رہے کہ حجاجی ان بے شمار انقلابی گارڈز اور رضاکاروں میں سے ایک تھا، جو عراق یا شام میں شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف برسرپیکار شیعہ ملیشیا کے ہم راہ لڑائی میں شریک ہیں۔
یہ بات اہم ہے کہ جب داعش نے حجاجی کو یرغمال بنانے اور اس کا سرقلم کرنے کی ویڈیوز کو پروپیگنڈا کے طور پر استعمال کیا، تو ایران میں اسے بالکل مختلف انداز سے لیا گیا۔ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی اس ویڈیو کو، جس میں حجاجی کو گرفتاری کے بعد سیدھا کھڑے ہوئے دکھایا گیا ہے اور اس کے پیچھے پس منظر میں دھواں اٹھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے، ایران میں ’حب الوطنی‘ کی ایک علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔