داغستان میں خود کُش بم حملہ، 5 روسی فوجی ہلاک
5 ستمبر 2010سکیورٹی ذرائع کے مطابق ایک خود کُش بم حملہ آور نے دھماکہ خیز مادے سے لدی ایک گاڑی کو داغستان میں Buynaksk کے علاقے کے نزدیک قائم ایک روسی ملٹری کیمپ کے دروازے سے ٹکرا دیا۔ روسی خبر رساں ایجنسی Itar-Tass نے کہا ہے کہ تمام ہلاک شدگان روسی فوجی تھے۔
داغستان میں مسلحہ جھڑپوں، فائرنگ اوربم دھماکے آئے دن کا معمول بنتے جا رہے رہیں۔ یہاں مسلم باغیوں کی مذاحمت زور پکڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ آج کے دہشت گردانہ واقعے سے پہلے داغستان کے قومی، مذہبی اور خارجہ امور کے وزیر Bekmurza Bekmurzayev پر داغستان کے دارالحکومت مخاشکالا میں ایک کار بم حملہ ہوا تھا۔ اُس واقعہ میں وزیر اور اُن کے دو باڈی گارڈز زخمی ہوئے تھے جبکہ اُن کا ڈرائیور ہلاک ہو گیا تھا۔
داغستان شمالی قفقاذ میں واقع ہے۔ یہاں ایک عرصے سے مسلم باغیوں کی تحریک آزادی جاری ہے جو رفتہ رفتہ پُر تشدد ہو چُکی ہے۔ عام خیال یہی ہے کہ قفقاذ کے علاقے میں عدم استحکام اور تشدد میں حالیہ دنوں میں اضافہ ہوا ہے اور اس کے پیچھے چیچنیا کا ہاتھ ہے جہاں سے ارد گرد کی ریاستوں میں مسلم باغیوں کی پشت پناہی کی جا رہی ہے۔
روسی صدردیمتری میدویدیف نے کہا ہے کہ اس علاقے میں پائی جانے والی شدید قربت کا خاتمہ ضروری ہے وگرنہ یہاں امن و استحکام قائم نہیں ہو سکتا۔
داغستان کا شمار قفقاذ کے کوہستانی سلسلے پر واقع سب سے زیادہ نسلی اورلسانی تنوع والے روسی علاقے میں ہوتا ہے۔ یہاں 40 مختلف نسلی گروہ آباد ہیں۔ روسی فیڈریشن میں شامل یہ جمہوریہ ڈھائی ملین کی آبادی پر مُشتمل ہے۔ ان میں اکثریت سنی مسلمانوں کی ہے۔ داغستان کو اکثر زبانوں اور قومیتوں کا پہاڑ کہا جاتا ہے جہاں ایسی قومیتیں بھی آباد ہیں جن سے تعلق رکھنے والے بمشکل دو گاؤں میں آباد ہیں۔ داغستان کا دارالحکومت مخاشکالا کا علاقہ انیسویں صدی میں روسی سامراج فوج نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا تب سے یہ ایک اہم تجارتی بندرگاہ بنا ہوا ہے۔ اب داغستان کی اہمیت وہاں سے نکالے جانے والے تیل اور گیس کے خزانوں کی وجہ سے بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔
موجودہ روس کے علاقے میں اسلام کی آمد داغستان کے قدیم جنوبی شہر Derbent سے ہوئی تھی۔ کم از کم ایک ہزار سال قبل عرب تاجروں نے قفقاذ کے اس علاقے کا رُخ کیا تھا اور اپنے ساتھ دین اسلام اور مسلم تہذیب اور رسم ورواج لے کر آئے تھے۔ قفقاذ کے علاقے میں اشتراکیت کے دور میں مذہبی آزادی نہیں تھی۔ کمیونزم کے خاتمے کے بعد دین اسلام نے اس علاقے میں تیزی سے فروغ پایا۔ اس وقت جموریہ داغستان میں 3 ہزار سے زائد مساجد پائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں اسلامی علوم کے متعدد انسٹیٹیوٹ اور مدرسے بھی بن گئے ہیں۔
داغستان دراصل ایک مسلم جنگجو امام شامل کی جائے پیدائش ہے۔ اسے قفقاذ کے مسلمان ایک لیجنڈ کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ امام شامل نے روسی سامراجیت کے خلاف عشروں تک مذاحمت جاری رکھی تھی۔ داغستان کے بہت سے علاقوں اور سڑکوں کے نام امام شامل سے منسوب کئے گئے ہیں۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: عصمت جبیں