داووس اجلاس میں کون کون شریک ہو رہا ہے
20 جنوری 2014داووس اجلاس میں دنیا بھر سے سیاسی، اقتصادی اور سائنس کے شعبوں سے تعلق رکھنے والی تقریباً ڈھائی ہزار شخصیات شرکت کریں گی۔ عالمی اقتصادی فورم کے بانی کلاؤس شواب کو امید ہے کہ اس اجلاس کے دوران ایسے فیصلے کیے جائیں گے، جن کی مدد سے مالیاتی بحران پر قابو پا لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ برسوں کے دوران عالمی اقتصادی ترقی انتہائی سست رفتار رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وجہ سے ایک نئے آغاز کی ضرورت ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق یورپ کی سب سے بڑی معیشت جرمنی میں گزشتہ برس اقتصادی شعبے میں ترقی کی رفتار 0.4 فیصد رہی جبکہ 2012ء میں یہ شرح0.7 فیصد رہی تھی۔ ایرانی صدر حسن روحانی اور اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے بھی اس اجلاس میں شرکت کی حامی بھری ہے۔ ان دونوں رہنماؤں کی شرکت کو انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ عالمی اقتصادی فورم کے ایک ترجمان کے بقول گزشتہ دس برسوں کے دوران پہلی مرتبہ کوئی ایرانی صدر اس اجلاس میں شرکت کر رہا ہے۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل زخمی ہونے کی بناء پر داووس میں موجود نہیں ہوں گی۔ چند ہفتے قبل وہ اسکیئنگ کے دوران زخمی ہو گئی تھیں۔ کلاؤس شواب کے بقول انہیں میرکل کے زخمی ہونے پر افسوس ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ جرمن چانسلر گزشتہ برسوں کے دوران باقاعدگی سے اجلاسوں میں شرکت کرتی رہی ہیں اور اس مرتبہ ان کی کمی محسوس کی جائے گی۔ جرمن وزیر مالیات وولفگانگ شوئبلے اور ترقیاتی امور کے وزیر گیرڈ ملّر برلن حکومت کی نمائندگی کریں گے۔
داووس میں عالمی اقتصادی نظام کی تشکیل نوکے علاوہ ٹیکنالوجی، صحت اور تحفظ ماحول جیسے شعبوں پر بھی بات چیت کی جائے گی۔ ان چار دنوں کے دوران چھوٹی بڑی 250 سے زائد نشستیں ہوں گی اور ان کے علاوہ متعدد ورکشاپس کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ سو سے زائد ممالک سے آنے والے نمائندوں کی اوسط عمر پچاس برس ہے اور شرکاء میں خواتین کی شرح 15فیصد ہو گی۔ اس کے علاوہ دنیا کے متعدد مشہور کاروباری اداروں کے اعلیٰ نمائندے بھی داووس میں موجود ہوں گے۔ مائیکروسافٹ کے بل گیٹس اور پال ایلن، گوگل کے ایگزیکٹو چیئرمین ایرک اشمٹ اور یاہو کی سربراہ جیمی ڈیمن کے علاوہ بھی کئی معروف شخصیات اجلاس میں شرکت کی حامی بھر چکی ہیں۔
جرمن ماہر معاشیات کلاؤس شواب نے عالمی اقتصادی فورم کی بنیاد 1971ء میں رکھی تھی۔ قیام کے فوراً بعد انہوں نے یورپی تجارتی اداروں کا ایک اجلاس منعقد کیا۔ بعد ازاں انہوں نے عالمی اقتصادی فورم کے نام سے ایک فاؤنڈیشن قائم کرتے ہوئے صرف اقتصادی اور سیاسی موضوعات پر توجہ مرکوز کر دی۔ عالمی اقتصادی فورم دنیا میں اپنی نوعیت کا مشہور ترین اجلاس ہے۔