'دا کشمیر فائلز' کے خلاف بولنا آسان نہ تھا، اسرائیلی فلم ساز
جاوید اختر، نئی دہلی
30 نومبر 2022
بالی ووڈ فلم 'دا کشمیر فائلز' کو 'پروپیگنڈا' اور 'فحش' قرار دینے والے اسرائیلی فلم ساز ناداف لاپیڈ کا کہنا ہے کہ اس فلم کے خلاف سرعام کچھ کہنا آسان نہیں تھا لیکن بہر حال کسی نہ کسی کو تو بولنا ہی چاہئے تھا۔
اشتہار
گوا میں منعقدہ بین الاقوامی فلم فیسٹیول میں جیوری کے سربراہ کے طور پر اسرائیلی فلم ساز ناداف لاپیڈ کا بالی وڈ فلم'دا کشمیر فائلز' کے حوالے سے کیے گئے تبصرے پر ہنگامہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ بھارت کے متعدد حلقوں کی جانب سے ناداف لاپیڈ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی یہ معاملہ گرم ہے۔
مذکورہ فلم کے فلم ساز وویک رنجن اگنی ہوتری، فلم میں کردار ادا کرنے والے معروف اداکار انوپم کھیر، بالی ووڈ کی متعدد فلمی شخصیات کے علاوہ ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے رہنماوں اور وزراء بھی لاپیڈ کی مسلسل نکتہ چینی کر رہے ہیں۔
بھارت میں اسرائیلی سفیر نیور گیلون نے سلسلہ وار ٹویٹ کرکے لاپیڈ کے تبصرے پر معذرت کرتے ہوئے اسرائیلی فلم ساز کو بھارتی عوام سے معافی مانگنے کے لیے کہا ہے۔
ان تمام ہنگاموں کے درمیان ناداف لاپیڈ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا "یہ سب کیا ہو رہا ہے، یہ پاگل پن ہے۔"
'کسی نہ کسی کو تو بولنا ہی تھا'
ایک اسرائیلی اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں لاپیڈ کا کہنا تھا کہ اس طرح کا سیاسی بیان دینا آسان نہیں تھا۔
اشتہار
"مجھے معلوم تھا کہ یہ ایک ایسی تقریب ہے جو اس (میزبان) ملک کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے، جہاں ہر کوئی کھڑا ہو کر حکومت کی تعریف کرتا ہے۔ میرے لیے فیصلہ کرنا آسان نہیں تھا کیونکہ میں ایک تو مہمان تھا دوسرے جیوری کا صدر اور میری کافی اچھی مہمان نوازی بھی کی گئی تھی۔"
اسرائیلی فلم ساز نے مزید کہا کہ ہال میں ہزاروں افراد موجود تھے، جن میں فلمی ستارے، سرکاری عہدیداراور دیگر اہم شخصیات بھی تھیں جو حکومت کی تعریف سننا چاہتی تھیں۔ لیکن "ایسے ملک میں جہاں اپنے دل کی بات یا حقیقت کا اظہار کرنے کی صلاحیت تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہو، کسی نہ کسی کو تو بولنا ہی تھا۔"
خیال رہے کہ ناداف لاپیڈ نے فلمی میلے کے اختتام پر اپنی تقریر میں 'دا کشمیر فائلز' کو نمائش میں شامل کیے جانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے 'پروپیگنڈا' اور 'فحش' فلم قرار دیا تھا۔ جس وقت وہ اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے وہاں بھارت کے وزیر اطلاعات و نشریات انوراگ ٹھاکر اور ریاستی وزیر اعلی کے علاوہ متعدد اہم شخصیات موجود تھیں۔
ناداف لاپیڈ نے مزید کہا "مجھے خدشہ تھا، مجھے پریشانی بھی لاحق تھی کیونکہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میرے بیان پر کیا ردعمل ہوگا۔ بہر حال میں خوش ہوں اور ایرپورٹ کی جانب جا رہا ہوں۔"
آخر انہوں نے ایسا تبصرہ کیوں کیا؟
جب اسرائیلی فلم ساز سے پوچھا گیا کہ انہوں نے 'دا کشمیر فائلز' کے بارے میں اس طرح کا تبصرہ کیوں کیا تو لاپیڈ کا کہنا تھا، "وہ یہ دیکھ کر متحیر رہ گئے تھے کہ اس فلم میں کشمیر کے متعلق بھارتی پالیسی کو درست ٹھہرایا گیا ہے۔ اور اس میں فاشسٹ عناصر موجود ہیں۔"
لاپیڈ نے مزید کہا کہ حالانکہ یہ فلم بھارتی حکومت نے نہیں بنائی ہے لیکن کم از کم اس نے غیر معمولی طریقے سے اس کی تشہیر ضرور کی۔ اور اگر چند برس بعد اسی طرح کی کوئی فلم اسرائیل میں بنائی جائے تو انہیں اس پر قطعی حیرت نہیں ہوگی۔
کشمیری پنڈتوں کی وادی کشمیر سے جلا وطنی اور انہیں درپیش مسائل پر مبنی اس فلم کی وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے بھی تعریف کی تھی۔ جس کے بعد بی جے پی کے ریاستی وزرائے اعلی اور اہم رہنماوں کی جانب سے اس کی تعریف کے پل باندھے گئے تھے۔ بی جے پی حکومت والی ریاستوں نے اس کو ٹیکس سے مستشنی کر دیا اور اس نے 340 کروڑ روپے سے زیادہ کا کاروبار کیا۔
آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے لیے اس فلم کی ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں خصوصی نمائش کی گئی تھی۔ انہوں نے فلم دیکھنے کے بعد کہا تھا کہ جو لوگ سچائی دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں انہیں یہ فلم ضرور دیکھنی چاہئے۔
حالانکہ کمزور کہانی اور فنی پہلووں کے مدنظر ناقدین اور مبصرین نے ابتدا سے ہی اسے معمولی درجے کی فلم قرار دیا تھا۔
بالی ووڈ نے ہالی ووڈ کی کونسی فلموں کی نقل کی؟
بالی ووڈ کے ہدایت کار ہالی ووڈ کی مشہور ترین فلموں کے اکثر بھارتی ورژن ’ری میک‘ کرتے ہیں۔ جہاں ناقدین فلموں کی نقل کی مذمت کرتے ہیں، وہیں شائقین انگریزی زبان کی فلموں کا تازہ ورژن دیکھ کر کافی خوش ہوتے ہیں۔
ہالی ووڈ کی کامیاب ترین انگریزی فلموں کو دیگر ممالک کے فلم سازوں کی جانب سے اپنے مقامی ناظرین کے لیے دوبارہ بنانا کوئی نئی بات نہیں۔ اس کے بدلے میں اسٹوڈیوز فلم کے رائٹس خرید لیتے ہیں۔ لیکن کئی بالی ووڈ ہدایت کار ہالی ووڈ فلموں کی ہو بہو نقل کرتے رہے ہیں۔ اس مرتبہ ٹام ہینکس کی آسکر ایوارڈ یافتہ فلم ’فاریسٹ گَمپ‘ کا بھارتی ورژن بنایا گیا ہے۔
تصویر: dpa/picture alliance
’لال سنگھ چڈھا‘
عامر خان کی حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم ’لال سنگھ چڈھا‘ Viacom 18 Studios کی پروڈکشن ہے۔ یہ دراصل انگریزی فلم "Forrest Gump" کا آفیشل ری میک ہے، جس کہ تمام تر کاپی رائٹس پیراماؤنٹ پکچرز کے پاس ہیں اور عامر خان نے اسے دوبارہ فلم بند کرنے کے لیے کاپی رائٹس خریدے ہیں۔
کئی دہائیوں تک بھارتی فلم انڈسٹری امریکی فلموں کا مواد بغیر کسی قانونی اجازت کے استعمال کرتی رہی۔ سن 1987 میں ریلیز ہونے والی انگریزی فلم ’ڈرٹی ڈانسنگ‘ بھارتی فلم میکر پوجا بھٹ نے سن 2006 میں ’ہالی ڈے‘ کے نام سے ہندی زبان میں ری میک کی تھی۔ تاہم یہ فلم زیادہ مقبولیت حاصل نہیں کرسکی۔
تصویر: Constantin-film/dpa/picture alliance
’مسز ڈاؤٹ فائر‘
اس فلم میں ایک طلاق یافتہ مرد ایک خاتون کے روپ میں بچوں کی دیکھ بھال کرنے والی پیشہ ور آیا کا کام کرتا ہے تاکہ اس کی سابقہ اہلیا اسے گھر میں کام کرنے کی اجازت دے اور وہ اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزار سکے۔ سن 1993 میں ریلیز ہونے والی اس فلم میں ’مسز ڈاؤٹ فائر‘ کا مرکزی کردار رابن ولیمز نے بخوبی نبھایا تھا۔
تصویر: United Archives/picture alliance
'چاچی 420'
1997ء میں بالی ووڈ نے "مسز ڈاؤٹ فائر" کا ایک ری میک بنایا جس کا نام "چاچی 420" تھا۔ اس فلم میں کمل حسن نے اداکاری اور ہدایت کاری کی تھی۔ یہ فلم، درحقیقت ایک ری میک کا ری میک تھا، کیونکہ بالی ووڈ ورژن تامل زبان کی فلم انڈسٹری کولی ووڈ کی فلم ’اوائی شانمگی‘ پر مبنی تھا۔ "چاچی 420" نے بھارتی باکس آفس پر شاندار کامیابی حاصل کی۔
تصویر: National Film Archive India
'کانٹے'
مجرموں کا ایک گروہ بینک ڈکیتی میں ناکام ہو جاتا ہے — یہ ایک عام کہانی ہے اور فلم سازوں پر اسے نقل کرنے کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ سن 2002 میں ریلیز کی گئی بھارتی فلم ’کانٹے‘ میں کوینٹن ٹرانٹینو کی امریکی فلم ’’ریزروائر ڈاگس‘‘ کو ایک مثال کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔ اس فلم کی کاسٹ میں عالمی شہرت یافتہ بالی ووڈ اسٹار امیتابھ بچن بھی شامل تھے۔
تصویر: White Feather Films/Film Club LdT.
'سپرمین'
بعض اوقات بالی ووڈ کی ری میک فلمیں اتنی زیادہ کاپی کی گئی ہوتی ہیں کہ وہ مزاحیہ لگتی ہیں۔ سن 1987 میں، ہدایت کار بی گپتا کے پاس "سپرمین" کے ری میک کے لیے ناکافی وسائل تھے، اس لیے انہوں نے اصل فلم سے تمام اقتباسات نقل کیے اور انہیں اپنی فلم میں شامل کردیے۔ کم از کم، مرکزی کردار کے لیے بھارتی فلم اسٹار دھرمیندر کو کاسٹ کیا گیا۔ لیکن اصل مین آف اسٹیل امریکی اداکار کرسٹوفر ریو ہی رہے۔
تصویر: dpa/picture alliance
’ہری پتر‘
ہری پتر کا نام تو جادوگر لڑکے کے ایک معروف کردار ’ہیری پوٹر‘ سے ملتا جلتا ہے اور پوسٹر میں دکھائی گئی حویلی ہاگ وارٹس کے طلسماتی اسکول جیسی لگتی ہے۔ اسی لیے امریکی فلم اسٹوڈیو وارنر براز نے بالی ووڈ کے خلاف کیس کر دیا لیکن وہ عدالت میں مقدمہ ہار گئے کیونکہ یہ فلم ہیری پوٹر کی فلم کا ری میک نہیں ہے۔
تصویر: Mirchi Movies
’ہوم الون‘
سن 1990 میں ریلیز ہونے والی فیملی کامیڈی فلم ’ہوم الون‘ میں مکاؤلی کلکن نے کِیون نامی ایک ایسے بچے کا کاردار ادا کیا، جو کرسمس کی تعطیلات میں گھر پر اکیلا رہ جاتا ہے۔ اکیلے گھر میں اسے دو چوروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بالی ووڈ نے اس فلم کو اٹھارہ سال بعد کاپی کیا تھا۔
تصویر: United Archives/picture alliance
’دی گاڈ فادر‘
مارلن برینڈو نے اس فلم میں گاڈ فادر کے مشہور کردار میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس فلم کے کئی سیکوئلز اور ری میک بھی بنائے گئے۔ بالی ووڈ نے اس فلم کا ری میک بنانے میں تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ لگا دیا۔
تصویر: picture-alliance
’سرکار‘
بھارتی سپر اسٹار امیتابھ بچن نے سن 2005 میں ہندی فلم ’سرکار‘ میں ’گاڈ فادر‘ کا کردار نبھایا تھا۔ اس فلم میں ان کے بیٹے ابھیشیک بچن اور اداکارہ کترینا کیف سمیت کئی دیگر کامیاب بھارتی اداکاروں نے کام کیا تھا۔