ایک تازہ تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسے دبلے افراد جو زیادہ وقت بیٹھے رہتے ہیں، ان میں بھی فربہ اور موٹاپے کے شکار افراد کی طرح دل کے عارضے اور اسٹروک جیسے مسائل کا خطرہ رہتا ہے۔
اشتہار
محققین کے مطابق اس مطالعے میں عام وزن کے حامل افراد پر توجہ مرکوز کی گئی، جو دن کا زیادہ تر وقت بیٹھ کر گزارتے ہیں، تاہم ہفتہ وار بنیادوں پر ورزش کے لیے مختص کم از کم ہدف یعنی 150 منٹ پر توجہ بھی دیتے ہیں۔ محققین کے کہنا ہے کہ اس معتدل ورزش کرنے مگر دن کا زیادہ تر حصہ بیٹھ کر گزارنے والے عام وزن کے حامل افراد میں موٹے افراد کے مقابلے میں دل کے دورے کے خطرات 58 فیصد کم دیکھے گئے ہیں۔ تاہم عمومی وزن کے حامل ایسے افراد جو ورزش بالکل نہیں کرتے یا انتہائی کم ورزش کرتے ہیں، ان میں عارضہ قلب کے خدشات موٹاپے کے شکار افراد سے مختلف نہیں دیکھے گئے۔
اس تحقیقی رپورٹ کے مصنف اور یونیورسٹی آف فلوریڈا سے تعلق رکھنے والے آرچ مائینوس کے مطابق، ’’عام وزن کا حامل ہونا، صحت مندی کے لیے کافی نہیں ہے۔‘‘
انہوں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ’’عام وزن کے حامل افراد کو یہ بتانا ضروری ہے کہ انہیں ورزش کرنا ہے، کیوں کہ دوسری صورت میں وہ صحت مندی کے ایک جھوٹے احساس سے وابستہ ہو کر نقصان اٹھا سکتے ہیں۔‘‘
نِیل پڑنے کی چھ وجوہات
کبھی کبھی کسی میز کا کونا لگ جانے سے، کسی کرسی سے ٹکرا جانے سے یا کسی معمولی سے ٹھوکر سے جسم کے متاثرہ حصے پر نِیل پڑ جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ نِیل پڑتے کیوں ہیں؟
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/F. Hecker
نِیل ہے کیا؟
جسم کے کسی حصے پر چوٹ لگنے کی وجہ سے جلد کے اندر خون کی کسی نالی کو اس طرح نقصان پہنچنا کہ اس میں سے قلیل مقدار میں خون کا اخراج شروع ہو جائے، بنفشی، سیاہ یا نیلے رنگ کے نشان کی صورت میں برآمد ہوتا ہے، اسی کو عمومی زبان میں نِیل کہا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/F. Hecker
آپ مخصوص ادویات کا استعمال کر رہے ہیں
بعض ادویات کے استعمال کی صورت میں بغیر کسی وجہ کے جسم کے کسی حصے پر نِیل پیدا ہونے کا احتمال بھی ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ادرک، لہسن یا وٹامن ای کا زیادہ استعمال بھی کئی بار جسم پر نِیل پیدا کرنے کا سبب بنے سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/TravelLightart/P. Trummer
آپ بوڑھے ہو رہے ہیں
عمر ڈھلنے کے ساتھ جلد پتلی اور خون کی نالیاں کم زور ہو جاتی ہیں۔ ایسی صورت میں جسم پر نِیل پڑنے کے امکانات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جسم سے چربی کی مقدار کم ہو جائے، تو بھی خون کی نالیاں کو کسی معمولی سے ٹھوکر سے بھی نقصان پہنچنے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔
تصویر: Colourbox
آپ خون پتلا کرنے والی ادویات استعمال کر رہے ہیں
اگر آپ خون کی نالیوں میں جمے ہوئے خون یا دل کے امراض کے تناظر میں خون پتلا کرنے والی ادویات کا استعمال کر رہے ہیں، تو نیل پڑنے کا احتمال ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ایبوبروفین یا ایسپرین کا استعمال کرنے والوں کے جسم پر بھی نیل پڑنے کا امکان عام افراد کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔
تصویر: Colourbox
آپ ذہنی تناؤ کے تدارک کی دوا لے رہے ہیں
اگر آپ ڈپریشن کے خلاف فلیکسوٹین، سرٹرالین، سیلاٹوپرام یا بوپروپیون جیسی ادویات کا استعمال کر رہے ہیں، تو ممکن ہے آپ کسی معمولی چوٹ کی صورت میں اپنے جسم پر نِیل کا نشان دیکھیں۔ وجہ یہ ہے کہ یہ ادویات براہ راست خون کے بہاؤ پر اثرانداز ہوتی ہیں۔
تصویر: Fotolia/Doruk Sikman
آپ نظام خون کے مسائل کا شکار ہیں
ہیموفیلیا اور خون کی دیگر بیماریاں خون کی نالیوں کو انتہائی کم زور کر سکتی ہیں۔ ہیموفیلیا کے حامل افراد کسی معمولی چوٹ کی صورت میں جسم کے اندر خون کے شدید رساؤ کا شکار ہو سکتے ہیں، جو جلد پر بڑے نیل کی صورت میں ظاہر ہو سکتا ہے۔
تصویر: Imago
آپ کا جسم وٹامن کی کمی کا شکار ہے
جسم میں وٹامن سی اور وٹامن کے کی کمی غیرمتوقع نِیل کا باعث بن سکتی ہے۔ لیکن اگر آپ کسی امیر ملک میں رہتے ہیں اور خوراک تک آپ کی رسائی آسان ہے، تو یہ انتہائی غیرمتوقع بات ہو گی کہ آپ وٹامن کی کمی سے دوچار ہیں۔
تصویر: Colourbox
نِیل سے جان کب چھوٹے گی؟
بدقسمتی سے اس کا کوئی فوری حل نہیں۔ نِیل پڑنے کی صورت میں جسم اندرونی طور پر خارج ہونے والا خون جذب کرے گا اور یہ عمل کم از کم دو ہفتے لے گا۔ محققین کے مطابق وقت گزرنے پر نِیل اپنا رنگ تبدیل کرتے ہوئے براؤن، پیلے یا سبز رنگ کی جانب مائل ہو گا اور پھر دھیرے دھیرے جلد سے غائب ہو گا۔ اس عمل میں جلدی اس طرح ہو سکتی ہے کہ جیسے ہی آپ کو کوئی اندرونی چوٹ لگے، فوراﹰ جسم کے متاثرہ حصے پر برف رکھیے۔
تصویر: Colourbox
8 تصاویر1 | 8
مائینوس کا کہنا تھا، ’’آرام دہ زندگی خصوصاﹰ جب وہ درمیانی عمر یا زیادہ عمر کے ہوں، دل کے پٹھوں کی کمیت اور مضبوطی کے لیے نقصان دہ ہے۔‘‘
اس مطالعے میں 40 تا 79 برس کی عمروں کے افراد کو شامل کیا گیا تھا، جن کا دل کے عارضے سے کبھی وابستہ نہیں رہا۔ محققین کے مطابق اس تحقیق میں ایسے افراد جب کا باڈی ماس انڈیکس ساڑھے اٹھارہ سے چوبیس اعشاریہ نو تھا، انہیں عام وزن کا حامل سمجھتا گیا اور ایسے افراد جن کا باڈی ماس انڈیکس پچیس تا تیس تھا، انہیں فربہ قرار دیا گیا۔