درجنوں چینی مسیحی، پناہ کی تلاش میں تھائی لینڈ پہنچ گئے
22 ستمبر 2022
کئی برسوں سے جاری ناروا سلوک نے بالآخر درجنوں چینی مسیحیوں کو ملک چھوڑ کر دیار غیر میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا۔ تاہم ان میں سے بعض کا کہنا ہے کہ چین چھوڑ دینے کے باوجود بھی انہیں بیجنگ کی طرف سے دھمکیاں مل رہی ہیں۔
اشتہار
چین میں کئی برسوں سے تکلیف دہ حالات میں رہنے اور جنوبی کوریا میں سیاسی پناہ نہ ملنے کے سبب 57 چینی مسیحی افراد کا ایک گروپ گزشتہ ماہ تھائی لینڈ پہنچا۔ ان کا مقصد اقوام متحدہ کی مہاجرین کی ایجنسی یو این ایچ سی آر کے ذریعے تھائی لینڈ میں سیاسی پناہ حاصل کرنا تھا۔
2019ء میں چین چھوڑ دینے کے باوجود چرچ کے ان ارکان کی طرف سے اپنی زندگی کو مشکلات میں گھری ہوئی اور مسلسل خطرات کا شکار قرار دیا گیا۔
اس چرچ کے ایک پاسٹر پان یونگوانگ کے مطابق، ''سال 2014ء کے بعد سے پولیس ہماری عبادت کی جگہ پر چھاپے مار چکی ہے، مجھے سوالات کے لیے بلا چکی ہے اور ہمارے کمپیوٹرز اور بائبل قبضے میں لے چکی ہے‘‘
پان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''2018ء میں میری طرف سے مذہبی معاملات سے متعلق قواعد پر ایک عوامی تنقیدی بیان پر دستخط کرنے کے بعد پولیس نے میرے مالک مکان پر دباؤ ڈالا کہ وہ مجھے نکال دے تاکہ میں کہیں قدم نہ جما سکوں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ''چرچ مجبور ہوا کہ وہ اپنے مذہبی اجتماعات کے لیے جگہیں مسلسل تبدیل کرتا رہے۔ جب میں نے 2019ء میں ایک تربیت میں شرکت کے لیے تھائی لینڈ جانے کی کوشش کی تو مقامی پولیس نے میرے گھر سے نکلنے پر پابندی عائد کر دی جس کی وجہ سے میں روانہ نہ ہو سکا۔‘‘
چین میں ایغوروں کا دیس سکیورٹی اسٹیٹ میں تبدیل
چین کا کہنا ہے کہ اُسے اپنے مغربی علاقے سنکیانگ میں مسلمان انتہا پسندی کے ایک سنگین خطرے کا سامنا ہے۔ بیجنگ حکومت کا الزام ہے کہ ایغور مسلم اقلیت ہان چینی اکثریت کے ساتھ کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
مغربی چینی علاقے سنکیانگ میں حفاظتی انتظامات سخت تر
چین کی قدیم شاہراہِ ریشم پر واقع شہر کاشغر میں دن میں تین بار الارم بجتا ہے اور دکاندار حکومت کی طرف سے دیے گئے لکڑی کے ڈنڈے تھامے فوراً اپنی دکانوں سے باہر نکل آتے ہیں۔ پولیس کی نگرانی میں منظم کی جانے والی ان انسدادِ دہشت گردی مشقوں کے دوران یہ دکاندار چاقو لہرانے والے فرضی حملہ آوروں کے خلاف لڑتے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
’وَن بیلٹ، وَن روڈ پروگرام‘
ایغور نسل کا ایک شہری صحرائے تکلامکان میں امام عاصم کے مقبرے کو جانے والے راستے پر جا رہا ہے۔ کاشغر نامی شہر کو، جو پہلے ایک تاریخی تجارتی چوکی ہوا کرتا تھا، صدر شی جن پنگ کے ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ نامی اُس اقتصادی پروگرام میں بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے، جس کے ذریعے وہ چین کو ایشیا، مشرقِ وُسطیٰ اور اُس سے بھی آگے واقع خطّوں کے ساتھ جوڑ دینا چاہتے ہیں۔
چین کو ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ سمٹ میں خلل کا اندیشہ
خود مختار علاقے سنکیانگ ایغور میں ایک شخص اپنی بھیڑیں چرا رہا ہے۔ چین کے بدترین خدشات میں سے ایک یہ ہے کہ کوئی بہت بڑے پیمانے کا حملہ بیجنگ میں اُس ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ سمٹ کو نشانہ بنا سکتا ہے، جس میں کئی عالمی رہنماؤں کی شرکت متوقع ہے۔ علاقائی صدر مقام اُرمچی میں 2009ء میں ہونے والے نسلی ہنگاموں کے بعد سے سنکیانگ خونریز پُر تشدد واقعات کا مرکز بنا ہوا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
چین میں نسلی اقلیت
ایک خاتون صحرائے تکلامکان میں امام عاصم کے مقبرے کے قریب ایک قبر پر دعا مانگ رہی ہے۔ ایغور ترک زبان بولنے والی اقلیت ہے، جس کے زیادہ تر ارکان سنی مسلمان ہیں۔ ایغوروں کا شمار چین میں سرکاری طور پر تسلیم شُدہ پچپن اقلیتوں میں ہوتا ہے۔ اگرچہ ایغور مجموعی طور پر ایک قدرے معتدل اسلام پر عمل پیرا ہیں لیکن کچھ ایغور جا کر مشرقِ وُسطیٰ میں مسلمان ملیشیاؤں میں شامل ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
کمیونسٹ پارٹی کا دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا عزم
چینی میڈیا کے مطابق کسی دہشت گردانہ حملے کا خطرہ بہت زیادہ ہے اور اسی لیے کمیونسٹ پارٹی نے بھی مسلمان انتہا پسندوں کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ مثلاً چینی حکام نے مسلمان کمیونٹی کے رسم و رواج پر کئی طرح کی پابندیاں لگا دی ہیں۔ ریاستی پراپیگنڈے کو ’رَد کرنا‘ غیر قانونی قرار دیا گیا حالانکہ یہ واضح نہیں ہو سکا کہ حکام اس ضابطے کو نافذ کیسے کریں گے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب
بہت سے مقامی باشندوں کے خیال میں انسدادِ دہشت گردی کی مشقیں ایک ظالمانہ سکیورٹی آپریشن کا حصہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ چند مہینوں سے سنکیانگ کے ایغور علاقوں میں یہ آپریشن تیز تر کر دیا گیا ہے اور اس کا مقصد سکیورٹی سے زیادہ بڑے پیمانے پر نگرانی کرنا ہے۔ کاشغر میں ایک دکاندار نے بتایا:’’ہماری کوئی نجی زندگی نہیں رہ گئی۔ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آپ کیا کرنے والے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/T. Peter
مسلمانوں کی مخصوص روایات پر پابندی
مردوں پر لگائی گئی سب سے نمایاں پابندی یہ ہے کہ وہ اپنی ’داڑھیاں غیر معمولی طور پر نہ بڑھائیں‘۔ خواتین پر نقاب پہننے کی پابندی عائد کی گئی ہے۔ خاص طور پر ریلوے اسٹیشنوں اور ہوائی اڈوں جیسے عوامی مقامات میں برقعہ کرنے والی خواتین کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے اور فوراً پولیس کو مطلع کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
سکیورٹی عملے کے چوکس ارکان
حکام نے ایسے لوگوں کے لیے انعام کا اعلان کر رکھا ہے، جو لمبی داڑھیوں والے نوجوانوں یا ایسی مذہبی روایات کی پاسداری کی اطلاع دیں گے، جس میں انتہا پسندی کا پہلو نکل سکتا ہو۔ اس طرح مخبری کا ایک باقاعدہ نظام تشکیل دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے علمبردار گروپ ایسے احکامات کو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
معیشت یا سلامتی؟
حکومت سنکیانگ میں جبر کی پالیسیاں اختیار کرنے کے الزامات کو مسترد کرتی ہے اور اُن بھاری رقوم کا ذکر کرتی ہے، جو معدنی وسائل سے مالا مال اس خطّے کی اقتصادی ترقی کے لیے خرچ کی جا رہی ہیں۔ چین کی نسلی پالیسیوں کے ایک ماہر جیمز لائی بولڈ کے مطابق سنکیانگ میں سکیورٹی کے اقدامات لوگوں اور خیالات کے بہاؤ کو روکیں گے اور یوں ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ پروگرام کے خلاف جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
9 تصاویر1 | 9
مسیحیوں کے خلاف سختیاں
دسمبر 2018ء میں درجنوں مسیحیوں کی گرفتاری کے بعد پان اور ان کے چرچ کے دیگر ارکان نے چین چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔
پان کے مطابق، ''ہم جانتے تھے کہ چین میں مسیحی برادری کے لیے جگہ مزید تنگ ہو جائے گی اور حکام ہم پر دباؤ میں اضافہ کریں گے، ہم نے چین چھوڑنے اور جنوبی کوریا کے جزیرہ جیجو جانے کا فیصلہ کر لیا۔‘‘
اشتہار
سیاسی پناہ حاصل کرنے کے منصوبہ
پان اور چرچ کے دیگر ارکان دسمبر 2019ء میں جنوبی کوریا پہنچے، یہ چین کی طرف سے اپنی سرحدیں کووڈ انیس کے سبب بند کرنے سے کچھ ہی وقت قبل کی بات ہے۔
لیکن چینی حکومت نے انہیں ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ بعض چرچ ارکان اور ان کے چین میں موجود خاندانوں کے ارکان کو چین کی وزارت برائے ریاستی سکیورٹی کی طرف سے دھمکیاں ملیں۔
بیجنگ سے دھمکیاں ملنے کے باوجود ان چرچ ارکان کو امیگریشن سے متعلق وکلاء کی طرف سے بتایا گیا کہ انہیں جنوبی کوریا میں سیاسی پناہ ملنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ اس نے انہیں جنوبی کوریا سے ہٹ کر کوئی اور محفوظ ملک جانے کے لیے سوچنے پر مجبور کر دیا۔
جنوبی کوریا کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 2021ء میں سیاسی پناہ کے لیے درخواست دینے والوں میں سے محض ایک فیصد کو وہاں سیاسی پناہ دی گئی۔
چرچ کے پاسٹر پان یونگوانگ کے مطابق، ''جب ہمیں معلوم ہوا کہ جنوبی کوریا میں ہمیں پناہ نہیں مل سکے گی، ہم نے طے کیا کہ ہم تھائی لینڈ جائیں گے اور اقوام متحدہ کی مہاجرین سے متعلق ایجنسی کے ذریعے سیاسی پناہ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔‘‘
تاہم تھائی لینڈ میں ان کے لیے دیگر ممکنہ خطرات موجود تھے۔ گزشتہ کئی برسوں کے دوران چین چھوڑ کر اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک میں آنے والے بہت سے افراد کو چین واپس بھیج دیا گیا تھا حالانکہ وہ یو این ایچ سی آر کی طرف سے درخواستوں پر فیصلے کے انتظار میں تھے۔ اس چیز کے سبب چین سے آنے والے سیاسی پناہ کے متلاشیوں پر دباؤ بڑھ گیا۔
چین: ایغور مسلمان بچوں کی شرح پیدائش کم کرنے کی جبری کوشش
02:50
مسلسل پیچھا
گزشتہ ماہ تھائی لینڈ پہنچنے کے بعد سے ان چینی مسیحیوں نے کئی مرتبہ محسوس کیا کہ عجیب لوگ ان کا پیچھا کر رہے ہیں۔ پان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جس دن ہم نے ہوٹل میں چیک ان کیا اس سے اگلے دن کچھ لوگوں نے ہماری تصویریں لینا اور ویڈیوز بنانا شروع کر دیں۔‘‘
تھائی لینڈ پہنچنے والے ان چینی مسیحیوں میں چَین بھی شامل ہیں جو اپنے دو بچوں کے ساتھ امریکا جانے کی خواہش مند ہیں کیونکہ وہاں مذہبی آزادی یقینی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ''میں چاہتی ہوں کہ میرے بچے چرچ کے زیر انتظام چلنے والے اسکولوں میں جائیں اور میں چاہتی ہوں کہ انہیں مسیحیت کی تعلیم ملے۔‘‘
چین کے مطابق، ''مذہبی آزادی اور میرے بچوں کو تعلیم کی آزادی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے میں نے چین کو چھوڑا ہے۔‘‘