1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

درجہ حرارت: گزشتہ عشرہ گرم ترین رہا

Ali Amjad4 جولائی 2013

عالمی ماحول میں بڑھتی ہوئی حدت کا ذمہ دار زیادہ تر انسانی سرگرمیوں کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ ان میں ضرر رساں گیسوں خاص طور سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا صنعتی اخراج شامل ہے۔

تصویر: Reuters

اقوام متحدہ کی ایک تازہ ترین رپورٹ سے انکشاف ہوا ہے کہ اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں سب سے زیادہ گرمی پڑی اور درجہ حرارت ماضی کے تمام ریکارڈز کو توڑتے ہوئے بُلند ترین سطح تک پہنچ گیا۔ اس دوران گرمی کی شدت تین لاکھ ستر ہزار افراد کی ہلاکت کا سبب بنی۔

عالمی محکمہ موسمیات WMO کی طرف سے 2001 ء سے 2010 ء کے درمیان زمینی اور سمندری درجہ حرارت سے متعلق لگائے جانے والے اندازوں پر مشتمل یہ رپورٹ حال ہی میں منظر عام پر آئی ہے۔ اس کے مطابق اس عرصے کے دوران اوسط درجہ حرارت 14.47 ڈگری سینی گریڈ یا 58 ڈگری فارن ہائیٹ ریکارڈ کیا گیا۔

WMO کے سربراہ مشیل شارو کے بقول،’یہ اس تمام عرصے کی گرم ترین دہائی تھی‘۔ اقوام متحدہ کی اس رپورٹ سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ 1881ء میں لگائے گئے اندازوں کے مطابق اُس وقت بھی ایک لمبے عرصے تک اوسط درجہ حرارت 14 ڈگری سینٹی گریڈ یا 57.2 فارن ہائیٹ رہا تھا۔

ماحولیات کو آلودہ کرنے میں انسانوں کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہےتصویر: Fotolia/sablin

رپورٹ مزید بتاتی ہے کہ عالمی سطح پر ماپے جانے والے درجہ حرارت کے مطابق اس دہائی میں 2008 ء کو چھوڑ کر ہر سال پہلے کے مقابلے میں زیادہ گرم تھا۔ شارو کہتے ہیں،’جب سے ہم نے درجہ حرارت ماپنے کا سلسلہ شروع کیا ہے، تب سے 1990ء کے عشرے اور اُس سے گزشتہ دہائی کے درمیان درجہ حرارت میں سب سے زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔‘

2001 ء سے 2010 ء کے درمیان اُس سے پہلے عشرے کے مقابلے میں اوسط عالمی درجہ حرارت میں 0.21 ڈگری سینٹی گریڈ یا 0.37 ڈگری فارن ہائیٹ کا اضافہ ہوا۔ اس سے پہلے 80ء کی دہائی کے مقابلے میں 90ء کے عشرے میں درجہ حرارت میں 0.14 ڈگری سینٹی گریڈ یا 0.25 ڈگری فارن ہائیٹ کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

عالمی ماحول میں بڑھتی ہوئی حدت کا ذمہ دار زیادہ تر انسانی سرگرمیوں کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ ان میں ضرر رساں گیسوں خاص طور سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا صنعتی اخراج شامل ہے۔

اس بارے میں شکوک و شبہات رکھنے والے چند افراد کا ماننا ہے کہ اگر عالمی حرارت کو ماحول میں پائی جانے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کی بنیاد پر ماپا جائے تو درجہ حرارت اور زیادہ ہونا چاہیےتھا۔

درجہ حرارت میں اضافہ پانی کی قلت کا سبب بھی بن رہا ہےتصویر: Ruth Morris

مشیل شارو نے اس خیال کی تائید کی ہے کہ گرمی گہرے سمندروں میں ذخیرہ ہو رہی ہے اور مستقبل میں خارج ہو گی۔ حالیہ سردی کے موسم کے غیر معمولی طور پر لمبا ہونے اور اس بار یورپ میں گرمی کے موسم کی آمد کی سست رفتاری پر بھی بات کی جا رہی ہے، جو یورپی باشندوں کے لیے موسم سے متعلق گہرے عدم اطمنان کا باعث بنی ہے۔ اس بارے میں تاہم WMO کے سربراہ شارو کا کہنا ہے،’موسمیاتی تبدیلی پر نظر ڈالتے ہوئے اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ ہم تمام تر توجہ دنیا کے کسی ایک خاص خطے یا کسی ایک سال پر مرکوز نہ کریں‘۔

WMO کی طرف سے پیش کردہ یہ رپورٹ 139 ممالک میں موسمیات کی تبدیلی سے متعلق کروائے جانے والے سروے پر مشتمل ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ 94 فیصد نے 2001 ء سے 2010 ء کے دوران کے دس سالوں کو گرم ترین قرار دیا جبکہ 44 فیصد کے لیے ملک بھر میں درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا۔

km/aa(AFP)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں