1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

درعا میں شامی فوج کے ہاتھوں مزید بیس شہری ہلاک

9 جون 2012

جنوبی شام کے شہر درعا میں آج ہفتے کے روز ملکی فوج کی مبینہ بمباری میں مزید کم از کم بیس شہری مارے گئے، جن میں سے اکثریت عورتوں اور بچوں کی تھی۔

تصویر: AP

خبر ایجنسی اے ایف پی کی دمشق سے ملنے والی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ میں قائم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نامی تنظیم کے مطابق اس تازہ واقعے کے بعد شام میں سرکاری دستوں کے ہاتھوں عام شہریوں کے قتل عام کے خلاف اٹھنے والی آوازیں مزید بلند ہوتی جا رہی ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق پچھلے سال مارچ سے اب تک شام میں حکومت مخالف احتجاجی تحریک کے دوران ساڑھے تیرہ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

درعا میں ڈیڑھ درجن کے قریب عام شہریوں کی تازہ ہلاکتوں سے پہلے شام کے ایک گاؤں القبیر میں قتل عام کے واقعے کے بعد اقوام متحدہ کے مبصرین کے وفد کواس علاقےمیں کئی تکلیف دہ شواہد دیکھنے کو ملے۔ اے ایف پی کے مطابق اس گاؤں میں ان مبصرین نے دیکھا کہ دیواروں تک پر خون کے چھینٹے تھے اور قتل عام کی جگہ سے جلے ہوئے انسانی گوشت کی بہت تیز بو آ رہی تھی۔

شام میں سرکاری دستوں کے ہاتھوں عام شہریوں کے قتل عام کے خلاف اٹھنے والی آوازیں مزید بلند ہوتی جا رہی ہیںتصویر: AP

اس واقعے کے بعد مغربی ملکوں کی حکومتوں کے یہ مطالبے اور بھی شدید ہو گئے ہیں کہ بین الاقوامی برادری کو شام کے خلاف نئی اور بہت سخت پابندیاں لگانی چاہیئں۔ درعا میں ایک رہائشی علاقے پر سرکاری دستوں کی بمباری میں ہفتے کو صبح سویرے مزید بیس افراد مارے گئے۔ لندن میں سیریئن آبزرویٹری کے مطابق مرنے والوں میں نو خواتین اور تین بچے بھی شامل ہیں۔

مبصرین نے دیکھا کہ دیواروں تک پر خون کے چھینٹے تھے اور قتل عام کی جگہ سے جلے ہوئے انسانی گوشت کی بہت تیز بو آ رہی تھیتصویر: picture-alliance/dpa

مختلف خبرایجنسیوں نے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ درعا میں بمباری کے نتیجے میں درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے۔ درعا کا شمار شام کے ان شہروں میں ہوتا ہے، جہاں سے گزشتہ برس مارچ میں صدر بشار الاسد کے خلاف عوامی احتجاجی تحریک شروع ہوئی تھی۔

حولہ میں ہونے والےقتل عام پر بین الاقوامی تشویشتصویر: Reuters

لندن میں سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے سربراہ رامی عبدالرحمان نے آج بتایا کہ بمباری کے بعد درعا کا ملک کے باقی علاقوں سے ٹیلی مواصلاتی رابطہ تقریبا کٹ چکا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ درعا میں یہ نئی بمباری اس شہر میں سرکاری دستوں پر کیے جانے والے حالیہ مسلح حملوں کا ردعمل ہو سکتی ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے سلامتی کونسل کو بتایا ہے کہ ابتدائی رپورٹوں کے مطابق گزشتہ بدھ کے روز ملکی فوج کے دستوں نے گاؤں القبیر کا محاصرہ کر لیا تھا جس کے بعد مسلح ملیشیا کارکنوں نے اس گاؤں میں داخل ہو کر وہاں درجنوں عام شہریوں کو بڑی بربریت سے قتل کر دیا۔

دمشق حکومت نے اس قتل عام کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے اس کا ذمہ دار غیر ملکی دہشت گردوں کو قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق پچھلے سال مارچ سے اب تک شام میں حکومت مخالف احتجاجی تحریک کے دوران ساڑھے تیرہ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ij / ab / AFP

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں