درعا میں شامی فوج کے ہاتھوں مزید بیس شہری ہلاک
9 جون 2012
خبر ایجنسی اے ایف پی کی دمشق سے ملنے والی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ میں قائم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نامی تنظیم کے مطابق اس تازہ واقعے کے بعد شام میں سرکاری دستوں کے ہاتھوں عام شہریوں کے قتل عام کے خلاف اٹھنے والی آوازیں مزید بلند ہوتی جا رہی ہیں۔
درعا میں ڈیڑھ درجن کے قریب عام شہریوں کی تازہ ہلاکتوں سے پہلے شام کے ایک گاؤں القبیر میں قتل عام کے واقعے کے بعد اقوام متحدہ کے مبصرین کے وفد کواس علاقےمیں کئی تکلیف دہ شواہد دیکھنے کو ملے۔ اے ایف پی کے مطابق اس گاؤں میں ان مبصرین نے دیکھا کہ دیواروں تک پر خون کے چھینٹے تھے اور قتل عام کی جگہ سے جلے ہوئے انسانی گوشت کی بہت تیز بو آ رہی تھی۔
اس واقعے کے بعد مغربی ملکوں کی حکومتوں کے یہ مطالبے اور بھی شدید ہو گئے ہیں کہ بین الاقوامی برادری کو شام کے خلاف نئی اور بہت سخت پابندیاں لگانی چاہیئں۔ درعا میں ایک رہائشی علاقے پر سرکاری دستوں کی بمباری میں ہفتے کو صبح سویرے مزید بیس افراد مارے گئے۔ لندن میں سیریئن آبزرویٹری کے مطابق مرنے والوں میں نو خواتین اور تین بچے بھی شامل ہیں۔
مختلف خبرایجنسیوں نے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ درعا میں بمباری کے نتیجے میں درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے۔ درعا کا شمار شام کے ان شہروں میں ہوتا ہے، جہاں سے گزشتہ برس مارچ میں صدر بشار الاسد کے خلاف عوامی احتجاجی تحریک شروع ہوئی تھی۔
لندن میں سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے سربراہ رامی عبدالرحمان نے آج بتایا کہ بمباری کے بعد درعا کا ملک کے باقی علاقوں سے ٹیلی مواصلاتی رابطہ تقریبا کٹ چکا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ درعا میں یہ نئی بمباری اس شہر میں سرکاری دستوں پر کیے جانے والے حالیہ مسلح حملوں کا ردعمل ہو سکتی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے سلامتی کونسل کو بتایا ہے کہ ابتدائی رپورٹوں کے مطابق گزشتہ بدھ کے روز ملکی فوج کے دستوں نے گاؤں القبیر کا محاصرہ کر لیا تھا جس کے بعد مسلح ملیشیا کارکنوں نے اس گاؤں میں داخل ہو کر وہاں درجنوں عام شہریوں کو بڑی بربریت سے قتل کر دیا۔
دمشق حکومت نے اس قتل عام کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے اس کا ذمہ دار غیر ملکی دہشت گردوں کو قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق پچھلے سال مارچ سے اب تک شام میں حکومت مخالف احتجاجی تحریک کے دوران ساڑھے تیرہ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ij / ab / AFP