1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سفر و سیاحتپاکستان

بلتستان سے کراچی: دریائے سندھ میں اپنی نوعیت کا پہلا سفر

28 اگست 2022

اسلام آباد کے ایک نوجوان وجاہت ملک نے پینتالیس دنوں میں کشتی کے ذریعے دو ہزار تین سو کلومیٹر طویل دریائے سندھ کا سفر طے کیا۔ راستے میں انہیں ایک موقع پر اپنی جان لے لالے بھی پڑ گئے تھے۔

Filmstill | A view of journey
تصویر: Eyebex Films/Wajahat Malik

سیاحت سے دلچسپی رکھنے والے فلم میکر وجاہت ملک نے اپنا یہ سفر لائن آف کنٹرول کے اس مقام سے شروع کیا تھا، جہاں پر دریائے سندھ پاکستان میں داخل ہوتا ہے اور اس سفر کے دوران وہ جہانگیرہ، کالا باغ ،تربیلا، ہری پور، غازی بروتھا،  کوہاٹ، مکھڈ، چاچڑاں شریف، ڈیرہ اسماعیل خان، میرپور ماتھیلو، موہنجوداڑو اور سیہون شریف سمیت کئی علاقوں سے ہوتے ہوئے اپنے سفر کے اختتام پر وہ بحیرہ عرب سے ہوتے ہوئے کراچی کے مرینہ کلب پہنچے۔ اس موقع پر تحفظ ماحول کی وفاقی وزیر شیری رحمٰن نے ان کا استقبال کیا تھا۔ وجاہت ملک نے رواں برس مون سون کا سیزن شروع ہونے سے پہلے اپنا یہ سفر موسم بہار میں مارچ کے مہینے میں شروع کیا تھا، جو اپریل کے وسط میں اپنے اختتام کو پہنچا تھا۔

وجاہت ملک نے اپنا یہ سفر اس مقام سے شروع کیا تھا، جہاں پر دریائے سندھ پاکستان میں داخل ہوتا ہےتصویر: Friedrich Naumann Foundation/Muhammad Anwar

ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے وجاہت ملک کا کہنا تھا کہ ان کے اس سفر کا بنیادی مقصد دریائے سندھ کی صورتحال کا جائزہ لینا، اس پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے بارے میں جاننا اور اس بارے میں عوام کو آگاہی فراہم کرنا تھا۔ وجاہت ملک نے اپنے اس سفر میں کئی نئے ٹورسٹ پوائنٹس بھی دریافت کیے۔ وہ اپنے سفر کی ایک دستاویزی فلم تیار کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے مشاہدات کی روشنی میں تیار کردہ اپنی سفارشات پالیسی میکرز کو بھجوانے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔  

ان کے بقول ’’یہ ایک مشکل سفر تھا، سفر کے آغاز میں ہی ہمیں ایک چیک پوسٹ پر روک کر محتاط راستہ اپنانے کا مشورہ دیا گیا۔ راستے میں تیز پانی کے تھپیڑوں کے دوران ایک دفعہ ہماری کشتی الٹ گئی اور ہمیں جان کے لالے پڑ گئے۔ ایک دوسری جگہ ہمیں گردوغبار کے طوفان نے آ لیا۔ ہماری کشتی چھ فٹ پانی میں ہی چل سکتی تھی کئی مقامات پر پانی کم ہونے کی وجہ سے کشتی کو کھینچ کر گہرے پانیوں میں لانا پڑا۔ ہمیں یہ جان کر دکھ ہوا کہ کوٹری کے آگے والے علاقوں میں دریا کا پانی پہنچ ہی نہیں رہا۔ دریا کے خشک حصوں کا فاصلہ ہمیں گاڑیوں کے ذریعے طے کرنا پڑا۔ موہنجوداڑو سے دادو کی طرف جاتے ہوئے کچے کے علاقے میں ہم پر فائرنگ بھی ہوئی۔‘‘

پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ کچھ نوجوان دریائے سندھ کے پانیوں میں خطرات سے بھرپور یہ  طویل سفر طے کیا۔ اگرچہ اس سفر کے دوران انہیں کہیں کہیں عارضی طور پر اپنا سفر روک کر تھوڑی دیر کے لیے خشکی کا راستہ بھی لینا پڑا لیکن انہوں نے زیادہ تر فاصلہ پانیوں میں رہتے ہوئے طے کیا۔

کچے کے علاقے میں ہم پر فائرنگ بھی ہوئی, وجاہت ملکتصویر: Eyebex Films/Wajahat Malik

وجاہت ملک کے مطابق، ’’ان ساری مشکلات کے باوجود ہمیں دریائے سندھ کے بارے میں تازہ ترین معلومات ملیں۔ ہم نے راستے میں آنے والے شہروں کا بھی دورہ کیا۔ لوگوں سے ملے، ان کے کلچر سے شناسائی ہوئی، دریائے سندھ میں سفر کرتے ہوئے اس کے کناروں پر کئی شہر، قصبے دیہات، مزار اور تاریخی قلعے سمیت کئی اہم بستیاں اور عمارات دکھائی دیتی ہیں۔‘‘

وجاہت ملک بتاتے ہیں کہ جب انہوں نے بلتستان کے علاقے میں لائن آف کنٹرول کے پاس واقع ایک پل سے اپنے اس سفر کا آغاز کیا تو وہاں پانی بالکل صاف شفاف تھا۔ لیکن جوں جوں وہ جنوب کی طرف بڑھتے گئے تو پانی کا رنگ اور معیار خراب ہوتا گیا۔ کئی مقامات پر روایتی مچھلیاں نایاب ہوتی جا رہی ہیں۔ انہوں نے اٹک کے قریب ماربل فیکٹریوں کا آلودہ پانی دریا میں گرتے دیکھا۔کئی جگہوں پر پلاسٹک کی بوتلیں اور فوم کے ٹکڑے بھی دریا میں تیرتے دکھائی دیے۔ ڈیلٹا کے علاقوں میں دریا کا پانی نہ پہنچنے سے ایک طرف زراعت اور کاروبار ختم ہوتے جا رہے ہیں دوسری طرف کشتیوں میں زندگی بسر کرنے والے روایتی خاندان بھی معدوم ہوتے جا رہے ہیں، ’’دریائے سندھ کو تباہ کرنے والے عوامل کی روک تھام ضروری ہے لیکن کشمیر، کے پی، پنجاب اور سندھ سے گزرنے والے اس دریا کی اونر شپ عام طور پر صرف سندھ ہی لیتا ہے‘‘

ایک سوال کے جواب میں وجاہت نے بتایا کہ اس سفر پر ایک کروڑ روپے کے لگ بھگ لاگت آئی ہے اور انہیں اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سرینہ ہوٹلز اور پاکستان نیوی کا تعاون میسر رہا ہے۔ ان کے چھ رکنی قافلے میں تین لوگ مستقل محو سفر رہے جبکہ باقی تین بدلتے رہے۔ ان کے سفری قافلے میں تیراکی میں مہارت رکھنے والا اور دریائے سندھ کے راستوں کی نزاکتوں کو سمجھنے والا ایک آبی ماہر، ایک کشتی چلانے والا ملاح اور ایک حفاظتی گارڈ شامل تھے۔ ان کے قافلے سے کچھ فاصلے پر ایک اور کشتی بھی محو سفر رہی جس میں ماحولیات سے دلچسپی رکھنے والے ماہرین، صحافی اور دیگر لوگ شامل تھے۔

 اس قافلے میں جزوی طور پر شامل ہونے والی واحد خاتون پاکستان کی انوائرمنٹل جرنلسٹ عافیہ سلام نے ڈی ڈبلیو سے باتیں کرتے ہوئے بتایا کہ دریائے سندھ کا ہماری معیشت، زراعت، ثقافت اور تہذیب سے گہرا تعلق ہے۔ اس میں کچرا ڈالنا، اسے آلودہ کرنا، اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا اس کو خراب کرنے کا باعث بن رہا  ہے۔ انہیں یہ جان کر صدمہ ہوا کہ دریائے سندھ کے کناروں پر آباد بستیوں کے سیورج کا پانی دریا میں شامل ہو رہا ہے۔

’ڈیلٹا کے علاقوں میں دریا کا پانی نہ پہنچنے سے زراعت اور کاروبار ختم ہوتے جا رہے ہیں‘تصویر: Eyebex Films/Wajahat Malik

عافیہ سلام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ہمیں اس سال اپریل میں ہی بتا دیا گیا تھا کہ رواں برس زیادہ بارش ہو گی۔ یہ بارشی پانی اپنے روایتی راستوں سے ہی گزرا پھر کیا وجہ ہے کہ بلوچستان میں کوئی پل اور کوئی سڑک محفوظ نہ رہ سکی۔ ان کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے صرف بارش ہی زیادہ ہوئی ہے، باقی پلوں اور سڑکوں کے ٹوٹنے اور انفراسٹرکچر کے بہہ جانے کی وجہ انسانوں کی غفلت اور غلطیاں ہیں۔ ان کے خیال میں سیلابی صورتحال کا گورننس سے بھی تعلق ہے، ’’جب تک ہم معیاری اور مضبوط انفراسٹرکچر نہیں بنائیں گے تب تک ہمیں سیلابوں سے نقصان ہوتا رہے گا۔‘‘ 
یاد رہے انگریزوں کے زمانے کے بنے ہوئے کئی انفراسٹرکچر کئی علاقوں میں ابھی بھی مضبوطی کے ساتھ قائم ہیں۔

جرمنی کے ممتاز ادارے فریڈرش نیومن فاؤنڈیشن نے لاہور میں دریائے سندھ کے حوالے سے ایک پینل ڈسکشن کا اہتمام کیا جس میں دریائے سندھ کے اس سفر کی ابتدائی ویڈیو بھی دکھائی گئی۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے فاؤنڈیشن کے پاکستان آفس کی سربراہ برگٹ لم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ موسمیاتی تبدیلیاں اور پانی کے کمی کے مسائل دنیا بھر میں لوگوں کی تشویش کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے، جہاں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی شدت بہت زیادہ ہے۔ ان کے بقول ہر شخص کو یہ سمجھنا ہو گا کہ ہر کسی کی طرف سے ماحول کی بہتری کے لیے اٹھایا جانے والا ایک انفرادی قدم بھی اہمیت کا حامل ہے۔ 

پنجاب کے سابق وزیر تعلیم میاں عمران مسعود نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں کلائیمٹ چینج کے معاملات آخری ترجیحات میں شامل ہیں، ’’یہاں ماحول کی آلودگی بڑھ رہی ہے، لوگ ہیپا ٹائٹس کا شکار ہو رہے ہیں، شہریوں کو فضائی آلودگی اور سموگ جیسی پریشانیوں کا سامنا رہتا ہے۔ پانی کم ہوتا جا رہا ہے ایسے میں جو اقدامات ہونا چاہییں تھے وہ دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ ناروے جیسے ملک نے ڈیزل انجن ترک کرکے الیکٹرک سسٹم کو اپنا لیا ہے دنیا ہائبرڈ  گاڑیوں کی طرف آ رہی ہے۔ ہمیں بھی اپنے ملک کے مفاد میں فوری اقدامات اٹھانا ہوں گے۔‘‘ 

یاد رہے دریائے سندھ میں کشتیوں کے ذریعے ایسے سفر پہلے بھی ہوتے رہے ہیں لیکن یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ شروع سے آخر تک کسی نے کشتی میں دریائے سندھ کا سفر کیا ہے۔

انڈس ڈیلٹا تباہی کے دہانے پر

04:00

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں