جرمنی سے ملک بدر کیے جانے والے دس افغان باشندے واپس اپنے ملک پہنچ گئے ہیں۔ پناہ کی درخواست مسترد ہونے پر انہیں خصوصی پرواز کے ذریعے افغانستان روانہ کیا گیا تھا۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے جرمن حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ افغان تارکین وطن کا ایک گروپ ستائیس مارچ بروز منگل افغانستان پہنچ گیا۔ اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مہاجرین کے امور سے وابستہ ایک جرمن اہلکار نے بتایا ہے کہ دس افغان باشندوں کو منگل کی علی الصبح عالمی وقت کے مطابق تین بجکر تیس منٹ پرایک چارٹرڈ طیارے کے ذریعے افغانستان روانہ کیا گیا تھا۔
برلن میں پاکستانی اور افغان مہاجرین کے احتجاجی مظاہرے
02:10
ان حکام نے تصدیق کر دی ہے کہ لائپزگ ہالے ہوائی اڈے سے کابل جانے والی یہ خصوصی پرواز کابل پہنچ چکی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ان افغان باشندوں کی جرمنی میں جمع کرائی گئی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی تھیں، جس کی وجہ سے انہیں ملک بدر کیا گیا ہے۔ جرمنی میں ایسے افغان مہاجرین اور تارکین وطن افراد کا یہ گیارہواں گروپ تھا، جسے جرمنی سے ملک بدر کر کے واپس افغانستان بھیجا گیا ہے۔
سن دو ہزار سولہ میں جرمن اور افغان حکومتوں کے مابین ایک معاہدہ طے طے پایا تھا، جس کے تحت پناہ کے مسترد شدہ افغان درخواست گزاروں کو جرمنی سے ملک بدر کیا جا رہا ہے۔ حکام نے بتایا ہے کہ اس ڈیل کے تحت اب تک 198 افغان مہاجرین کو واپس وطن روانہ کیا جا چکا ہے۔
جرمن حکومت نے مئی سن دو ہزار سترہ میں کابل میں واقع جرمن سفارتخانے کے نزدیک ہونے والے ایک خونریز خود کش حملے کے بعد افغان مہاجرین کی ملک بدری کا سلسلہ عارضی طور پر ترک کر دیا تھا۔ اس حملے کی وجہ سے نوے افراد ہلاک جبکہ چار سو زخمی ہو گئے تھے۔
تاہم ستمبر میں جرمن حکومت نے ایسے افغان مہاجرین اور تارکین وطن کی ملک بدری کا سلسلہ بحال کر دیا تھا، جن کی پناہ کی درخواستوں کو مسترد کیا جا چکا ہے۔ لیکن نئی پالیسی کے تحت صرف ایسے افغانوں کو ملک بدر کیا جا رہا ہے، جن پر دہشت گرد ہونے کا شبہ ہو، جرائم پیشہ ہوں یا پھر ایسے جو اپنی اصل شناخت کے حوالے سے جرمن حکومت کے ساتھ تعاون نہیں کر رہے ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ افغان مہاجرین کو وطن واپس نہیں بھیجا جانا چاہیے کیونکہ افغانستان کی سکیورٹی انتہائی مخدوش ہے۔ حالیہ عرصے میں طالبان، اسلامک اسٹٰٹ اور دیگر انتہا پسند گروہوں نے اپنی کارروائیوں میں تیزی پیدا کر رکھی ہے۔ ان حملوں میں زیادہ تر سرکاری اور غیر ملکی اہداف کو نشانہ بنایا جاتا ہے تاہم اس دوران شہری ہلاکتوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
ع ب / ش ح / ڈی پی اے
جرمنی سے افغان مہاجرین کی ملک بدری
سن دو ہزار سولہ کے وسط میں جرمن حکومت نے چونتیس افغان تارکین وطن کو ملک بدر کیا تھا۔ رواں برس مئی میں افغان مہاجرین کی ملک بدری عارضی طور پر روکے جانے کے بعد یہ سلسلہ اب دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
کابل کی طرف پرواز
رواں برس مئی میں کابل میں جرمن سفارت خانے پر دہشت گردانہ حملے کے بعد پہلی مرتبہ بارہ ستمبر کو پندرہ ایسے افغان تارکین وطن کی ایک پرواز کابل روانہ ہوئی جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی تھیں۔ جرمن سیاسی جماعتوں ’دی لنکے‘ اور ’گرین‘ نے ملک بدری کے سلسلے کے دوبارہ آغاز پر حکومت کو تنقيد کا نشانہ بنايا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
مہلت حاصل کرنے کی جد وجہد
امسال مارچ میں جرمن شہر کوٹبس کے ایک اسکول کے طلبہ نے اپنے تین افغان ساتھیوں کی ملک بدری کے احکامات جاری ہونے کے بعد مظاہرے کیے اور ان کی ملک بدری رکوانے کے لیے چندہ جمع کرتے ہوئے ایک مہم بھی شروع کی تاکہ کسی طرح ان افغان مہاجر ساتھیوں کو جرمنی ہی میں رکھا جا سکے۔
تصویر: DW/S.Petersmann
’کابل محفوظ نہیں‘
’جان لیوا خطرے کی جانب روانگی‘ یہ پوسٹر افغان مہاجرین کی جرمنی بدری کے خلاف فروری میں میونخ کے ہوائی اڈے پر ایک مظاہرے کے دوران استعمال کیا گیا۔ تارکین وطن ایسے مظاہرے عموماﹰ اُن ہوائی اڈوں پر کرتے ہیں جہاں سے ملک بدر مہاجرین کے جہاز نے پرواز کرنا ہوتا ہے۔ جنوری سے مئی سن دو ہزار سترہ تک ایسی کئی پروازیں کابل روانہ کی گئیں۔ امسال اب تک برلن حکومت دو سو اکسٹھ مہاجرین افغانستان واپس بھیج چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
وورزبرگ سے کابل تک
تیس سالہ بادام حیدری نے رواں برس جنوری میں ملک بدر ہونے سے پہلے جرمنی میں سات سال کا عرصہ گزارا۔ حیدری نے افغانستان میں امریکی ادارے یو ایس ایڈ کے ساتھ کام کیا تھا اور وہ طالبان کے خوف سے جرمنی فرار ہوئے تھے۔ اُنہیں اب بھی امید ہے کہ وہ کسی طرح دوبارہ جرمنی پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
اقلیتوں پر مظالم
جنوری ہی میں جرمن حکومت نے افغان ہندو سمیر نارنگ کو بھی افغانستان واپس بھیج دیا تھا۔ نارنگ اپنے خاندان کے ساتھ جرمن شہر ہیمبرگ میں چار سال سے پناہ گزین تھا۔ نارنگ نے ایک جرمن پبلک ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسلم اکثریت والا ملک افغانستان مذہبی اقلیتوں کے لیے محفوظ نہیں۔ سمیر کے مطابق یہ ملک بدریاں زندگی کے لیے خطرہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Wiedl
نہ چاہتے ہوئے بھی جانا ہو گا
ملک بدر کیے جانے والے افغان تارکین وطن کو بیس یورو فی کس دیے جاتے ہیں۔ بعد میں وہ عالمی ادارہ مہاجرت سے معاونت حاصل کرنے کے لیے رجوع کر سکتے ہیں۔ بین الاقوامی سائیکولوجیکل تنظیم کے ارکان واپس جانے والے مہاجرین کو مشورے دیتے ہیں۔ آئی پی ایس او نامی اس تنظیم کو جرمن وزارت خارجہ فنڈز فراہم کرتی ہے۔