دس روز میں 73 ہزار روہنگیا مہاجر میانمار سے بنگلہ دیش پہنچے
مقبول ملک ڈی پی اے
3 ستمبر 2017
میانمار میں روہنگیا مسلم اقلیت کو درپیش نئی خونریزی کے آغاز سے اب تک گزشتہ دس روز میں ایسے 73 ہزار مہاجرین ہمسایہ ملک بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔ تاحال جاری اس خونریزی میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے اور ہزاروں گھر جلا دیے گئے۔
اشتہار
بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکا سے اتوار تین ستمبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے آج تصدیق کر دی کہ میانمار کی ریاست راکھین میں گزشتہ ماہ کے اواخر میں جن شدت پسندانہ حملوں اور بہت بڑے جوابی فوجی آپریشن کا آغاز ہوا تھا، اس خونریزی اور بدامنی کے دوران اپنی جانیں بچا کر بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا مہاجرین کی تعداد اتوار کی صبح کم از کم بھی 73 ہزار ہو چکی تھی۔
ڈھاکا میں عالمی ادارے کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے ترجمان جوزف تری پورہ نے ڈی پی اے کو بتایا، ’’راکھین میں بدامنی اور خونریزی سے بچ کر نکلنے والے رونگیا مہاجرین ابھی تک سینکڑوں کی تعداد میں سرحد عبور کر کے بنگلہ دیش پہنچ رہے ہیں۔‘‘
یو این ایچ سی آر کے مطابق میانمار سے بنگلہ دیش پہنچنے والے نئے روہنگیا مہاجرین کی تعداد سے متعلق یہ اندازے بھی کم از کم ہیں اور حقیقی تعداد اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ جوزف تری پورہ کے مطابق یہ اعداد و شمار عینی شاہدین، مقامی اداروں، حکومتی تنظیموں اور ان بین الاقوامی غیر حکومتی تنظیموں کے بیانات کی روشنی میں جمع کیے گئے ہیں، جو ان علاقوں میں کام کر رہی ہیں، جہاں یہ ’بے وطن‘ مسلم مہاجرین پہنچ رہے ہیں۔
میانمار سے ان مہاجرین کی زیادہ تعداد جنوب مشرقی بنگلہ دیش کے ضلع کاکس بازار پہنچتی ہے، کیونکہ یہی بنگلہ دیشی ضلع جغرافیائی طور پر میانمار کی ریاست راکھین سے جڑا ہوا ہے، جہاں سے یہ اقلیتی باشندے اپنی جانیں بچا کر فرار ہو رہے ہیں۔
راکھین میں، جہاں روہنگیا مسلم اقلیت کی اکثریت رہتی ہے، ماضی میں بھی وسیع پیمانے پر خونریزی دیکھنے میں آ چکی ہے۔ وہاں تازہ ترین خونریزی اگست کی 25 تاریخ کو اس وقت شروع ہوئی تھی، جب آراکان روہنگیا سالویشن آرمی یا ARSA کے شدت پسندوں نے بڑے مربوط انداز میں کیے گئے مسلح حملوں میں کئی سرکاری سکیورٹی چیک پوسٹوں کو نشانہ بنایا تھا۔
اس کے بعد وہاں میانمار کی سکیورٹی فورسز نے بھرپور کارروائی شروع کر دی تھی۔ 25 اگست سے لے کر ستمبر کی تین تاریخ تک کے درمیانی دس دنوں میں راکھین میں اس خونریزی میں قریب 400 افراد مارے جا چکے ہیں اور کم ازکم 2600 گھر بھی جلا دیے گئے تھے۔
میانمار کی فوج کے مطابق روہنگیا اکثریتی آبادی والے راکھین کی علاقوں میں ان گھروں کو مبینہ طور پر ’ارسا‘ کے روہنگیا عسکریت پسندوں نے جلایا تھا اور مقامی روہنگیا آبادی کو ان عسکریت پسندوں کی گرفتاری کے لیے سکیورٹی دستوں سے تعاون کرنا چاہیے۔
دوسری طرف بنگلہ دیش پہنچنے والے ہزارہا مہاجرین نے بتایا ہے کہ راکھین میں سکیورٹی دستے نہ صرف عام روہنگیا باشندوں پر حملوں اور ان کے قتل کے واقعات میں ملوث ہیں بلکہ فوجیوں نے ان کے گھر تک بھی جلا دیے تاکہ میانمار کی حکومت کی طرف سے ’غیر قانونی تارکین وطن‘ قرار دیے جانے والے لیکن عشروں سے راکھین میں مقیم ان باشندوں کو وہاں سے مکمل طور پر نکال دیا جائے۔
یہ رپورٹیں بھی ملی ہیں کہ بہت بڑی تعداد میں روہنگیا مہاجرین میانمار اور بنگلہ دیش کے درمیانی سرحدی علاقے میں بھی پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ وہ کسی طرح بنگلہ دیش میں داخل ہو جائیں۔
بنگلہ دیشی بارڈر گارڈز کی بالعموم کوشش یہ ہوتی ہے کہ ان مہاجرین کو سرحد پار کر کے ملک میں داخل ہونے سے روک دیا جائے۔ مشترکہ سرحد کے قریب علاقوں میں پھنسے ان مہاجرین کو اس وقت پناہ، خوراک اور تحفظ کی اشد ضرورت ہے۔
دوسری طرف بہت سے روہنگیا مہاجرین کسی نہ کسی طرح راکھین اور میانمار سے نکلنے کی جدوجہد کے دوران وہ دریا پار کرنے کی کوششیں بھی کر رہے ہیں، جو وہاں میانمار اور بنگلہ دیش کے درمیان ایک طرح کی قدرتی سرحد کا کام دیتا ہے۔
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
میانمار (برما) کے مغربی صوبے راكھین میں روہنگیا مسلمانوں کی آبادی تقریباﹰ دس لاکھ ہے۔ لیکن ان کی زندگیاں تشدد، امتیازی سلوک، بے بسی اور مفلسی سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ جانیے روہنگیا اقلیت کے بارے میں حقائق۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
کوئی ملک نہیں
روہنگیا خواتین، بچوں اور مردوں کا کوئی ملک نہیں ہے یعنی ان کے پاس کسی بھی ملک کی شہریت نہیں۔ رہتے یہ ميانمار میں ہیں لیکن انہیں صرف غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجر مانا جاتا ہے۔
تصویر: DW/C. Kapoor
سب سے زیادہ نسلی تشدد کا سامنا
میانمار کے اکثریتی بدھ مت افراد اور اس ملک کی سکیورٹی فورسز پر روہنگیا مسلمانوں کو نسلی تشدد کا نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ روہنگیا لوگوں کو کوئی بھی حقوق یا اختیار حاصل نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ دنیا کی وہ اقلیت ہے، جسے اس وقت سب سے زیادہ نسلی تشدد کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
سفری پابندیاں
یہ لوگ نہ تو اپنی مرضی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پر جا سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی مرضی سے کام کر سکتے ہیں۔ جن گھروں اور جھونپڑیوں میں یہ رہتے ہیں، انہیں کبھی بھی اور کسی بھی وقت خالی کرنے کو کہہ دیا جاتا ہے۔ میانمار میں ان لوگوں کی کہیں بھی سُنوائی نہیں ہوتی۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
کیا یہ بنگالی ہیں؟
یہ لوگ کئی دہائیوں سے راكھین صوبے میں رہ رہے ہیں لیکن وہاں کے بدھ مت لوگ انہیں "بنگالی" کہہ کر دھتكارتے ہیں۔ یہ لوگ جو بولی بولتے ہیں، ویسی بنگلہ دیش کے جنوبی علاقے چٹاگانگ میں بولی جاتی ہے۔ روہنگیا لوگ سنی مسلمان ہیں۔
تصویر: Getty Images/Afp/C. Archambault
پرخطر سفر
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 2012ء میں مذہبی تشدد کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد سے تقریباﹰ ایک لاکھ بیس ہزار روہنگیا مسلمان راكھین چھوڑ چکے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ سمندر میں کشتیاں ڈوبنے سے ہلاک بھی ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Pruksarak
اجتماعی قبریں
ملائیشیا اور تھائی لینڈ کی سرحد کے قریب روہنگیا افرادکی متعدد اجتماعی قبریں ملی ہیں۔ 2015ء میں جب غیرقانونی تارکین کے خلاف کچھ سختی کی گئی تو کشتیوں پر سوار سینکڑوں روہنگیا کئی دنوں تک سمندر میں پھنسے رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Ismail
انسانی اسمگلنگ
روہنگیا اقلیت کی مجبوری کا فائدہ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے گروہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ مجبور لوگ اپنی جمع پونجی انہیں سونپ کر کسی محفوظ مقام کے لیے اپنی زندگی خطرے میں ڈالنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
تصویر: DW/C. Kapoor
بنگلہ دیش کی طرف نقل مکانی
میانمار سے ملحق بنگلہ دیش کے جنوبی حصے میں تقریباﹰ تین لاکھ روہنگیا باشندے رہتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ایسے ہیں، جو میانمار سے جان بچا کر وہاں پہنچے ہیں۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
پناہ حاصل کرنا آسان نہیں
ایسے روہنگیا کم ہی ہیں، جنہیں بنگلہ دیشی حکومت مہاجرین کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔ یہ کشتیوں کے ذریعے بنگلہ دیش میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بنگلہ دیشی سکیورٹی فورسز انہیں زبردستی واپس میانمار کی طرف بھیج دیتی ہیں۔
تصویر: Reuters
جہاں بھی پناہ ملے
بنگلادیش کے علاوہ روہنگیا لوگ بھارت، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور چین جیسے ممالک کا بھی رخ کر رہے ہیں۔ یہ سبھی ممالک میانمار سے قریب ہیں۔
تصویر: DW/C. Kapoor
’امن کے لیے خطرہ‘
میانمار کی سکیورٹی فورسز کے مطابق چیک پوسٹوں پر ہونے والے حالیہ چند حملوں میں روہنگیا نسل کے باغی ملوث تھے۔ اس کے جواب میں روہنگیا باشندوں کے کئی دیہات کو جلا دیا گیا تھا۔ سکیورٹی فورسز کے مطابق یہ ’امن کے لیے خطرہ‘ ہیں۔
تصویر: Reuters/Soe Zeya Tun
انسانی حقوق کی تنظیموں کی اپیل
انسانی حقوق کے متعدد گروپ میانمار حکومت سے اپیل کر چکے ہیں کہ روہنگیا کو بنیادی انسانی حقوق فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ملکی شہریت دی جائے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Yulinnas
قانونی رکاوٹ
میانمار میں روہنگیا افراد کو ایک نسلی گروپ کے طور پر تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ اس کی ایک وجہ 1982ء کا وہ قانون بھی ہے، جس کے مطابق شہریت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی نسلی گروپ کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ 1823ء سے قبل بھی میانمار میں ہی تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Win
آنگ سان سوچی پر تنقید
نوبل امن انعام یافتہ اور حکمران پارٹی کی لیڈر آنگ سان سوچی نے روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار پر تقریبا خاموشی اختیار کر رکھی ہے، جس پر انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس معاملے پر ملک کی طاقتور فوج سے اختلاف کرنا نہیں چاہتی۔