دس سال بیت گئے لیکن ایزدی ابھی تک تلخ یادیں لیے پھرتے ہیں
3 اگست 2024
دہشت گرد گروہ داعش کے ہاتھوں قتل عام کے دس سال بعد بھی ایزدی انصاف کے متلاشی ہیں۔ ٹھیک دس سال قبل تین اگست سن دو ہزار چودہ کو اس عراقی کمیونٹی پر حملوں کا آغاز ہوا تھا۔
اشتہار
3 اگست 2014 کی علی الصبح انتہا پسند گروہ 'اسلامک اسٹیٹ‘ کے جنگجوؤں نے شمالی عراق میں ایزدی کمیونٹی کے خلاف لرزہ خیز کارروائی کا آغاز کیا تھا۔
ان کے آبائی علاقے میں داخل ہونے والے ان دہشت گردوں نے ایزدی مردوں کو موقع پر ہی قتل کر دیا جبکہ عورتوں اور بچوں کو حراست میں لے لیا تھا۔ ان میں سے ہزاروں کو بطور غلام بھی فروخت کیا گیا۔
سن 2017 میں عراق کو ان انتہاپسندوں سے آزاد کرا لیا گیا تھا۔اس وقت داعش کے زیادہ تر ارکان مر چکے ہیں یا قید میں ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اس کے کچھ جنگجو ابھی تک روپوش بھی ہیں۔ لیکن داعش کے خاتمے کے سات سال کا عرصہ بیت جانے کے باوجود ایزدی اب بھی انصاف کے منتظر ہیں۔
کچھ پیش رفت ہوئی ہے
شمالی عراق میں واقع ایزدی تعلیمی ادارے سنجار اکیڈمی کے سربراہ مراد اسماعیل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Souleiman
7 تصاویر1 | 7
اسماعیل کے بقول اہم بات یہ ہے کہ زندہ بچ جانے والے ایزدیوں کو بیرون ممالک آباد کیا گیا اور داعش کے سابق ارکان کے خلاف بین الاقوامی عدالتوں میں مقدمات چلائے گئے۔
اس کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر یہ تسلیم بھی کیا گیا کہ داعش نے ایزدی افراد کی نسل کشی کی۔ عراقی حکومت کی طرف سے ایک قانون منظور کیا گیا، جس کے تحت زندہ بچ جانے والی ایزدی خواتین کو ماہانہ پانچ سو ڈالر بھی دیے جاتے ہیں۔
لیکن اسماعیل اور دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ داعش کے ہاتھوں پکڑے گئے تقریبا 7000 ایزدیوں میں سے 2600 سو ابھی تک لاپتہ ہیں۔ اب بھی آئے روز عراق بھر ملنے والی اجتماعی قبروں سے ایزدیوں کی لاشیں برآمد ہوتی رہتی ہیں۔
اسماعیل نے داعش کی جانب سے کیے جانے والے جرائم کے احتساب کے لیے بنائے گئے اقوام متحدہ کے تحقیقاتی ادارے UNITAD کی غیر متوقع بندش پر سنگین تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
اس ادارے نے سن 2018 کام کرنا شروع کیا تھا، جس کا بنیادی مقصد داعش کے جرائم کی تحقیقات کرنا تھا۔
اشتہار
انسانی حقوق کے اداروں کا کیا کہنا ہے؟
ایزدی افراد کی وکالت کرنے والی تنظیموں نے اقوام متحدہ کو تجویز دی ہے کہ وہ UNITAD کی طرف سے جمع کردہ شواہد کو محفوظ رکھا جائے اور اس ادارے کی جگہ ایک اور خصوصی ٹریبونل تشکیل دیا جائے۔
ایڈوکیسی آرگنائزیشن یزدا کی ڈائریکٹر نتیا ناوروزوف نے کہا ہے کہ وہ چاہتی ہیں کہ عراق میں انصاف ہو۔
عراق میں بین الاقوامی جرائم پر مقدمہ چلانے کی اجازت دینے کے لیے ایک مسودہ قانون موجود ہے لیکن اسے ابھی تک منظور نہیں کیا گیا ہے۔ ناوروزوف کا اصرار ہے کہ عراقی حکام اپنے منصوبوں کے بارے میں شفاف نہیں ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ''ہم پیغام دے رہے ہیں کہ UNITAD کو بند کرنے کے بعد ہم انتظام سنبھال لیں گے۔ لیکن اعتماد کا فقدان ہے؟‘‘
سنجار اکیڈمی کے سربراہ اسماعیل کا بھی کہنا تھا کہ وہ جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ دنیا آگے بڑھ چکی ہے لیکن ایزدی وہیں کھڑے ہیں، انصاف کے متقاضی۔ انہوں نے کہا کہ بے شک داعش کا خاتمہ ہو چکا ہے لیکن اس انتہا پسند گروپ کی بربریت ابھی بھی ایزدیوں کے ذہن میں تازہ ہیں۔