گزشتہ برس دسمبر میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے ایک ملین شامی پناہ گزین اپنے ملک واپس جا چکے ہیں۔ تاہم تباہی کے سبب سات ملین سے زیادہ شامی باشندے ملک کے اندر ہی بے گھر بھی ہیں۔
ایجنسی کے مطابق تقریباً 14 سال کی خانہ جنگی کے دوران شام کے اندر بے گھر ہونے والے 18 لاکھ افراد بھی اپنے آبائی علاقوں کو واپس لوٹ چکے ہیںتصویر: Ammar Safarjalani/picture alliance/Photoshot
اشتہار
تارکین وطن سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کا کہنا ہے کہ گزشتہ دسمبر میں شام کے حکمران بشار الاسد کے خاتمے کے بعد سے دس لاکھ شامی پناہ گزین اپنے ملک واپس جا چکے ہیں۔ تاہم ادارے نے خبردار کیا ہے کہ انسانی بنیادوں پر کارروائیوں کے لیے فنڈز میں کافی کمی آتی جا رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے (یو این ایچ سی آر) نے ایک بیان میں کہا، "محض نو مہینوں میں، آٹھ دسمبر 2024 کو بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد 10 لاکھ شامی باشندے اپنے ملک واپس پہنچ گئے ہیں۔"
ایجنسی نے مزید کہا کہ تقریباً 14 سال کی خانہ جنگی کے دوران شام کے اندر بے گھر ہونے والے 18 لاکھ افراد بھی اپنے آبائی علاقوں کو واپس لوٹ چکے ہیں۔
سن 2011 میں بہار عرب کے مظاہروں کے ایک حصے کے طور پر شام میں بھی حکومت مخالف پرامن مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تھا، جس کے خلاف اسد حکومت نے سخت کریک ڈاؤن کا آغاز کیا اور پھر اس طویل تنازعے کی وجہ سے 13 ملین پر مشتمل شام کی آبادی کا نصف حصہ بے گھر ہو گیا۔
واپس آنے والوں کے لیے چیلنجز کیا ہیں؟
اقوام متحدہ کی ایجنسی نے بڑے پیمانے پر اس واپسی کو "ملک میں سیاسی منتقلی کے بعد شامی باشندوں کی امیدوں اور بڑی توقعات کی علامت" کے طور پر بیان کیا ہے تاہم ادارے کا کہنا ہے کہ واپس آنے والوں میں سے بہت سے اپنی زندگیوں کی تعمیر نو کے لیے سخت جدوجہد کر رہے ہیں۔
یو این ایچ سی آر کے ایک حالیہ سروے سے پتہ چلا ہے کہ اردن، لبنان، مصر اور عراق میں 80 فیصد شامی مہاجرین ایک نہ ایک دن اپنے وطن واپس جانا چاہتے ہیںتصویر: Khalil Hamra/AP Photo/picture alliance
ایجنسی نے کہا، "تباہ شدہ مکانات اور بنیادی ڈھانچہ، کمزور اور تہس نہس پڑی بنیادی سروسز، روزگار کے مواقع کی کمی اور غیر مستحکم سکیورٹی لوگوں کی واپسی اور ان کی بحالی کے عزم کو چیلنج کر رہی ہیں۔"
یو این ایچ سی آر کے مطابق سات ملین سے زیادہ شامی ملک کے اندر ہی بے گھر ہیں اور 4.5 ملین سے زیادہ اب بھی بیرون ملک پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ادارے نے استحکام کی کوششوں میں زیادہ سرمایہ کاری اور کمزور خاندانوں کے لیے امداد میں اضافے پر زور دیا۔
اشتہار
انسانی ہمدردی کے تحت مدد کی اپیل
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین فلیپو گرانڈی نے کہا، "بین الاقوامی برادری، نجی شعبے اور بیرون ملک موجود شامی باشندوں کو ایک ساتھ مل کر بحالی میں مدد کے لیے اپنی کوششوں کو تیز کرنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ تنازعات سے بے گھر ہونے والوں کی رضاکارانہ واپسی پائیدار اور باوقار ہو اور انہیں دوبارہ بھاگنے پر مجبور نہ ہونا پڑے۔"
تباہ شدہ مکانات اور بنیادی ڈھانچہ، کمزور اور تہس نہس پڑی بنیادی سروسز، روزگار کے مواقع کی کمی اور غیر مستحکم سکیورٹی لوگوں کی واپسی کے عزم کو چیلنج کر رہی ہیں تصویر: Omar Haj Kadour/AFP/Getty Images
یو این ایچ سی آر کے ایک حالیہ سروے سے پتہ چلا ہے کہ اردن، لبنان، مصر اور عراق میں 80 فیصد شامی مہاجرین ایک نہ ایک دن اپنے وطن واپس جانا چاہتے ہیں، جبکہ 18 فیصد کا کہنا تھا کہ وہ اگلے سال کے اندر ہی ایسا کرنے کی امید رکھتے ہیں۔
گرانڈی نے کہا، "انہوں نے گزشتہ 14 سالوں میں بہت زیادہ مصائب برداشت کیے ہیں اور ان میں سے سب سے زیادہ کمزور لوگوں کو اب بھی تحفظ اور مدد کی ضرورت ہے۔ اردن، لبنان اور ترکی جیسے میزبانی کرنے والے ممالک کی جانب سے پائیدار حمایت اتنی ہی اہم ہے تاکہ واپسی رضاکارانہ، محفوظ اور باوقار ہو۔"
ادارے نے خبردار کیا ہے کہ انسانی بنیادوں پر کارروائیوں کے لیے فنڈز کم ہو رہے ہیں اور شام کے اندر، مطلوبہ فنڈز کا صرف 24 فیصد ہی دستیاب ہے، جبکہ شام کے وسیع تر علاقائی ردعمل کے لیے، صرف 30 فیصد فنڈز فراہم کیے گئے ہیں۔
ایجنسی نے کہا کہ "شامی عوام کی حمایت کم کرنے اور شام اور اس خطے کی بہتری کے لیے دباؤ ڈالنے کا یہ وقت نہیں ہے۔"
ادارت: جاوید اختر
دنیا بھر میں خطرات سے بھاگتے ہوئے مہاجرین کی بے بسی
جنگ، ظلم و ستم، قدرتی آفات اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرات کے سبب دنیا بھر میں تقریباﹰ 82.4 ملین افراد تحفظ کی تلاش میں اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ اس دوران سب سے زیادہ تکلیف کا سامنا بچوں کو کرنا پڑ رہا ہے۔
تصویر: KM Asad/dpa/picture alliance
سمندر میں ڈوبتا بچہ
یہ بچہ صرف دو مہینے کا تھا جب ہسپانوی پولیس کے ایک غوطہ خور نے اسے ڈوبنے سے بچایا تھا۔ گزشتہ ماہ ہزاروں افراد نے مراکش سے بحیرہ روم کو عبور کرتے ہوئے یورپ پہنچنے کی کوشش کی تھی۔ اس تصویر کو خود مختار ہسپانوی شہر سبتہ میں مہاجرین کے بحران کی نمایاں عکاسی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Guardia Civil/AP Photo/picture alliance
کوئی امید نظر نہیں آتی
بحیرہ روم دنیا کے خطرناک ترین غیرقانونی نقل مکانی کے راستوں میں سے ایک ہے۔ بہت سے افریقی پناہ گزین سمندری راستوں کے ذریعے یورپ پہنچنے میں ناکامی کے بعد لیبیا میں پھنس جاتے ہیں۔ طرابلس میں یہ نوجوان، جن میں سے بہت سے ابھی بھی نابالغ ہیں، لمحہ بہ لمحہ اپنی زندگی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ان کو اکثر مشکل حالات میں کام کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: MAHMUD TURKIA/AFP via Getty Images
سوٹ کیس میں بند زندگی
بنگلہ دیش میں کوکس بازار کا مہاجر کیمپ دنیا کی سب سے بڑی پناہ گاہوں میں سے ایک ہے، جہاں میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بستی ہے۔ غیر سرکاری تنظیمیں وہاں بچوں پر تشدد، منشیات، انسانی اسمگلنگ کے ساتھ ساتھ چائلڈ لیبر اور چائلڈ میرج جیسے مسائل کے خدشات کا اظہار کرتی ہیں۔
تصویر: DANISH SIDDIQUI/REUTERS
حالیہ بحران
ایتھوپیا کے صوبے تیگرائی میں خانہ جنگی نے مہاجرین کے ایک اور بحران کو جنم دے دیا۔ تیگرائی کی 90 فیصد آبادی کا انحصار غیرملکی انسانی امداد پر ہے۔ تقریباﹰ 1.6 ملین افراد سوڈان فرار ہو گئے۔ ان میں سات لاکھ بیس ہزار بچے میں شامل ہیں۔ یہ پناہ گزین عارضی کیمپوں میں پھنسے ہیں اور غیریقینی صورتحال کا شکار ہیں۔
تصویر: BAZ RATNER/REUTERS
پناہ گزین کہاں جائیں؟
ترکی میں پھنسے شامی اور افغان پناہ گزین اکثر یونان کے جزیروں تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یونانی جزیرے لیسبوس کے موریا مہاجر کیمپ میں کئی پناہ گزین بستے تھے۔ اس کیمپ میں گزشتہ برس ستمبر میں آگ بھڑک اٹھی تھی۔ موریا کیمپ کی یہ مہاجر فیملی اب ایتھنز میں رہتی ہے لیکن ان کو اپنی اگلی منزل کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Karahalis
ایک کٹھن زندگی
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں قائم ’افغان بستی ریفیوجی کیمپ‘ میں مقیم افغان بچوں کے لیے کوئی اسکول نہیں ہے۔ یہ کیمپ سن 1979 کے دوران افغانستان میں سوویت مداخلت کے بعد سے موجود ہے۔ وہاں رہائش کا بندوبست انتہائی خراب ہیں۔ اس کیمپ میں پینے کے صاف پانی اور مناسب رہائش کی سہولیات کا فقدان ہے۔
تصویر: Muhammed Semih Ugurlu/AA/picture alliance
بقائے حیات کے لیے امداد
وینزویلا کے بہت سے خاندان اپنے آبائی ملک میں اپنا مستقبل تاریک دیکھتے ہوئے ہمسایہ ملک کولمبیا چلے جاتے ہیں۔ وہاں انہیں غیرسرکاری تنظیم ریڈ کراس کی طرف سے طبی اور غذائی امداد فراہم کی جاتی ہے۔ ریڈکراس نے سرحدی قصبے آرائوکیتا کے ایک اسکول میں ایک عارضی کیمپ قائم کر رکھا ہے۔
تصویر: Luisa Gonzalez/REUTERS
ایک ادھورا انضمام
جرمنی میں بہت سے پناہ گزین اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے پرامید ہیں۔ جرمن شہر کارلس روہے کے لرنفروئنڈے ہاؤس میں مہاجرین والدین کے بچے جرمن اسکولوں میں داخلے کے لیے تیار تھے لیکن کووڈ انیس کی وبا کے سبب ان بچوں نے جرمن معاشرے میں ضم ہونے کا اہم ترین موقع کھو دیا۔