ایک تازہ رپورٹ کے مطابق یورپ سے زبردستی واپس افغانستان بھیجے جانے والے افغان مہاجرین میں سے 72 فیصد شورش اور خانہ جنگی کے باعث دوبارہ اپنے وطن سے مہاجرت اختیار کر چکے ہیں۔
اشتہار
بین الاقوامی امدادی ادارے ’نارویجیئن ریفیوجی کونسل‘ (این آر سی) نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں افغانستان میں سکیورٹی کی صورتحال پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
اس ادارے کے مطابق افغانستان واپس روانہ کیے جانے والے مہاجرین ملک میں جاری شورش اور تشدد سے جان بچا کر دوبارہ وہاں سے فرار ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
برلن میں پاکستانی اور افغان مہاجرین کے احتجاجی مظاہرے
02:10
اس ادارے نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ زبردستی واپس افغانستان روانہ کیے جانے والے بہتر فیصد افغان مہاجرین ایک مرتبہ پھر اپنے ملک کو خیر باد کہہ چکے ہیں۔
’نارویجیئن ریفیوجی کونسل‘ نے یورپی ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان کی سکیورٹی بہتر نہیں، اس لیے افغان مہاجرین کی ملک بدری کا عمل روک دیا جائے۔
’افغان جنگ سے فرار: آگے کیا ہو گا؟‘ نامی اس رپورٹ میں مختف ممالک میں پناہ کی غرض سے فرار ہونے والے ایسے افغان باشندوں کا انٹرویو کیا گیا، جنہیں واپس افغانستان بھیج دیا گیا تھا۔
ان میں سے بہتر فیصد ایسے تھے، جو واپس ملک لوٹ کر ایک مرتبہ پھر افغانستان سے فرار ہونے پر مجبور ہوئے۔ ان میں متعدد ایسے افغان شہری بھی شامل ہیں، جو کم از کم تین مرتبہ افغانستان سے مہاجرت اختیار کر چکے ہیں۔
ناورے کے امدادی ادارے ’این آر سی‘ کے مطابق بے گھر ہونے والے تین چوتھائی گھرانوں کو مدد نہیں مل رہی ہے جبکہ دو میں سے ایک افغان باشندہ خوراک کے حوالے سے غیر یقینی کی صورتحال سے دوچار ہے۔
گزشتہ صرف دو برسوں کے دوران ہی ایک ملین سے زائد افغان وطن چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار سترہ میں اوسطا ہر روز بارہ سو افغان شہری مہاجرت اختیار کرتے رہے۔
’نارویجیئن ریفیوجی کونسل‘ (این آر سی) کی اس رپورٹ کے مطابق اگرچہ اقوام متحدہ نے دو ہزار سترہ میں افغانستان کو ’ایکٹیو کانفلکٹ‘ والا ملک قرار دے دیا تھا تاہم افغانستان کے ہمسایہ ممالک اور یورپی ملکوں میں افغان مہاجرین کو پناہ دینے جانے کی شرح میں غیرمعمولی کمی واقع ہوئی ہے۔
اس رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ افغانستان میں سکیورٹی کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے اس وسطی ایشیائی ریاست کے ہمسایہ ممالک اور یورپی ملکوں کو افغان مہاجرین کی زبردستی ملک بدری کا سلسلہ ترک کر دینا چاہیے۔
جرمنی سے افغان مہاجرین کی ملک بدری
سن دو ہزار سولہ کے وسط میں جرمن حکومت نے چونتیس افغان تارکین وطن کو ملک بدر کیا تھا۔ رواں برس مئی میں افغان مہاجرین کی ملک بدری عارضی طور پر روکے جانے کے بعد یہ سلسلہ اب دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
کابل کی طرف پرواز
رواں برس مئی میں کابل میں جرمن سفارت خانے پر دہشت گردانہ حملے کے بعد پہلی مرتبہ بارہ ستمبر کو پندرہ ایسے افغان تارکین وطن کی ایک پرواز کابل روانہ ہوئی جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی تھیں۔ جرمن سیاسی جماعتوں ’دی لنکے‘ اور ’گرین‘ نے ملک بدری کے سلسلے کے دوبارہ آغاز پر حکومت کو تنقيد کا نشانہ بنايا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
مہلت حاصل کرنے کی جد وجہد
امسال مارچ میں جرمن شہر کوٹبس کے ایک اسکول کے طلبہ نے اپنے تین افغان ساتھیوں کی ملک بدری کے احکامات جاری ہونے کے بعد مظاہرے کیے اور ان کی ملک بدری رکوانے کے لیے چندہ جمع کرتے ہوئے ایک مہم بھی شروع کی تاکہ کسی طرح ان افغان مہاجر ساتھیوں کو جرمنی ہی میں رکھا جا سکے۔
تصویر: DW/S.Petersmann
’کابل محفوظ نہیں‘
’جان لیوا خطرے کی جانب روانگی‘ یہ پوسٹر افغان مہاجرین کی جرمنی بدری کے خلاف فروری میں میونخ کے ہوائی اڈے پر ایک مظاہرے کے دوران استعمال کیا گیا۔ تارکین وطن ایسے مظاہرے عموماﹰ اُن ہوائی اڈوں پر کرتے ہیں جہاں سے ملک بدر مہاجرین کے جہاز نے پرواز کرنا ہوتا ہے۔ جنوری سے مئی سن دو ہزار سترہ تک ایسی کئی پروازیں کابل روانہ کی گئیں۔ امسال اب تک برلن حکومت دو سو اکسٹھ مہاجرین افغانستان واپس بھیج چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
وورزبرگ سے کابل تک
تیس سالہ بادام حیدری نے رواں برس جنوری میں ملک بدر ہونے سے پہلے جرمنی میں سات سال کا عرصہ گزارا۔ حیدری نے افغانستان میں امریکی ادارے یو ایس ایڈ کے ساتھ کام کیا تھا اور وہ طالبان کے خوف سے جرمنی فرار ہوئے تھے۔ اُنہیں اب بھی امید ہے کہ وہ کسی طرح دوبارہ جرمنی پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
اقلیتوں پر مظالم
جنوری ہی میں جرمن حکومت نے افغان ہندو سمیر نارنگ کو بھی افغانستان واپس بھیج دیا تھا۔ نارنگ اپنے خاندان کے ساتھ جرمن شہر ہیمبرگ میں چار سال سے پناہ گزین تھا۔ نارنگ نے ایک جرمن پبلک ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسلم اکثریت والا ملک افغانستان مذہبی اقلیتوں کے لیے محفوظ نہیں۔ سمیر کے مطابق یہ ملک بدریاں زندگی کے لیے خطرہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Wiedl
نہ چاہتے ہوئے بھی جانا ہو گا
ملک بدر کیے جانے والے افغان تارکین وطن کو بیس یورو فی کس دیے جاتے ہیں۔ بعد میں وہ عالمی ادارہ مہاجرت سے معاونت حاصل کرنے کے لیے رجوع کر سکتے ہیں۔ بین الاقوامی سائیکولوجیکل تنظیم کے ارکان واپس جانے والے مہاجرین کو مشورے دیتے ہیں۔ آئی پی ایس او نامی اس تنظیم کو جرمن وزارت خارجہ فنڈز فراہم کرتی ہے۔