’دس ہزار سے زائد پناہ کے متلاشی انتہا پسندی کی جانب مائل‘
27 ستمبر 2018
جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرت اور تارکین وطن یا BAMF نے کہا ہے کہ اسے گزشتہ برس دس ہزار سے زائد پناہ کی درخواستیں دائر کرنے والے مہاجرین کے انتہا پسندی کی جانب مائل ہونے کے حوالے شواہد ملے ہیں۔
اشتہار
جرمن وفاقی ادارے BAMF کی جانب سے یہ بیان حکومتی اتحاد میں شامل سیاسی جماعت ایس پی ڈی کے سیاستدان اشٹیفان تھومے کی جانب سے کیے گئے ایک سوال کے جواب میں دیا گیا ہے۔
بامف کا کہنا ہے کہ سن دو ہزار سترہ میں اس نے جرمنی کے داخلی سلامتی سے متعلق خفیہ ادارے کو ملک بھر میں ایسے دس ہزار پانچ سو کے قریب انتہا پسندی کے مشتبہ کیسز کی نشاندہی کی تھی۔ جبکہ رواں برس کے پہلے آٹھ ماہ میں ایسے 4،979 کیسز کا اندراج کیا گیا تھا۔
سن 2015 میں جب پناہ کے لیے درخواستیں دائر کرنے والے تارکین وطن کی تعداد مقابلتاﹰ بہت زیادہ تھی، وفاقی داخلی خفیہ ایجنسی کے پاس صرف 571 ایسے کیسز درج کرائے گئے تھے جن پر انتہا پسندی یا مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا شبہ تھا۔
ان اعداد وشمار کے حوالے سے سب سے پہلے جرمن روزنامے’دی ویلٹ‘ نے رپورٹ کیا تھا۔ گزشتہ برسوں کے مقابلے میں مشتبہ کیسز میں اضافے کی ایک وجہ بامف کے ملازمین کا بدلا ہوا رویہ بھی ہے۔
ڈی پی اے کے مطابق بامف کے نؤرن برگ کے آفس کی ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ سن 2017 میں بامف کے حوالے سے بد عنوانی کا اسکینڈل سامنے آنے کے بعد سے سلامتی کے اداروں کے ساتھ تعاون اور نظام میں بہتری آئی ہے۔ اس کے علاوہ بامف کے وفاقی اور برانچ دفاتر میں ایسے افراد کو تعینات کیا گیا ہے جو سیکیورٹی معاملات کے حوالے زیادہ حساس ہیں۔
خیال رہے کہ ’بامف‘ جو ملکی وزارت داخلہ کے تحت پناہ کی درخواستوں پر کارروائی کرنے کا ذمہ دار ہے، کچھ عرصے قبل ’بریمن ریفیوجی اسکینڈل‘ کی زد میں رہا ہے۔ اس وفاقی جرمن دفتر برائے مہاجرت اور تارکین وطن کو ایسے الزامات کا سامنا رہا ہے کہ اس کی شمالی صوبے بریمن میں موجود شاخ میں سن 2013 اور سن 2016 کے درمیانی عرصے میں قریب بارہ سو مہاجرین کو غالباﹰ رشوت لے کر جرمنی میں رہنے کے بلاجواز اجازت نامے جاری کیے گئے تھے۔
ص ح / ع ت / نیوز ایجنسی
مہاجرین کے مبینہ جرائم پر دائیں بازو کا رد عمل شدید تر
جرمنی میں حالیہ کچھ عرصے میں ایک طرف جہاں مہاجرین کی طرف سے مبینہ جرائم کی خبریں سامنے آ رہی ہیں وہیں ملک میں انتہائی دائیں بازو کی جانب سے ان کے خلاف جذبات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ملاحظہ کیجیے یہ پکچر گیلری۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
جرمن شہری کی ہلاکت اور مظاہروں کا آغاز
کیمنٹس میں چھبیس اگست سے انتہائی دائیں بازو کی سوچ کے حامل افراد نے مظاہروں کا سلسلہ اُس وقت شروع کیا تھا جب ایک جرمن شہری کو سیاسی پناہ کے دو متلاشیوں نے ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: Jan Woitas/dpa/picture alliance
مظاہروں کے خلاف مظاہرے
اگرچہ رواں ماہ کی سات تاریخ کو کیمنٹس میں رائٹ ونگ گروپوں کے ارکان نے بھرپور مہاجرین مخالف مظاہرے کیے تاہم اگلے ہی روز کیمنٹس کے شہریوں نے بھی بڑی تعداد میں مہاجرین مخالف مظاہروں کے خلاف مظاہرے کیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
مسائل کی ماں مہاجرت
انہی مظاہروں کے درمیان جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کی جانب سے بھی پناہ گزینوں کی مخالفت میں ایک تنقیدی بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ مہاجرت ہی تمام مسائل کی ماں ہے۔ زیہوفر نے کیمنٹس میں رائٹ وِنگ کی جانب سے کیے گئے مظاہروں پر تنقید بھی نہیں کی۔
تصویر: Imago/Sven Simon/F. Hoermann
میا وی کے قاتل کو سزائے قید
ستمبر کی تین تاریخ کو جنوب مغربی جرمن شہر لنڈاؤ میں ایک جرمن عدالت نے عبدل ڈی نامی ایک افغان تارک وطن کو پندرہ سالہ جرمن لڑکی میا وی کو قتل کرنے کے جرم میں ساڑھے آٹھ سال قید کی سزا سنائی تھی۔ میا وی کی ہلاکت پر بھی اُس کے شہر کانڈل میں تارکین وطن کے خلاف مظاہرے کیے گئے تھے۔
تصویر: DW/A. Prange
ایک اور افغان مہاجر جیل میں
رواں ہفتے کے اختتام پر جرمن شہر ڈارم شٹڈ کی ایک عدالت نے ایک اور افغان مہاجر کو اپنی سترہ سالہ سابقہ گرل فرینڈ کو چاقو سے شدید زخمی کرنے کے جرم میں سات سال جیل کی سزا سنائی تھی۔ نو عمر افغان پناہ گزین پر الزام تھا کہ اس نے سن 2017 میں کرسمس سے قبل اپنی سابقہ گرل فرینڈ پر چاقو سے حملہ کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Stein
کوئتھن، جرمن نوجوان کی ہلاکت
ابھی کیمنٹس شہر میں تناؤ پوری طرح کم نہ ہوا تھا کہ جرمن ریاست سیکسنی اَن ہالٹ کے شہر کوئتھن میں ایک بائیس سالہ جرمن نوجوان کی دو افغان مہاجرین کے ہاتھوں مبینہ قتل نے ہلچل مچا دی۔ ریاست کے وزیر داخلہ ہولگر شٹالک نیخت نے شہریوں سے پر امن رہنے کی اپیل کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Hein
کوئتھن میں مظاہرے
مقامی پولیس کے مطابق ’کیمنٹس پرو‘ گروہ کی طرف سے سوشل میڈیا پر کوئتھن میں مظاہرے کی کال دی گئی جس پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے مثبت ردعمل ظاہر کیا۔ ایک اندازے کے مطابق اس مظاہرے میں پچیس ہزار افراد شریک ہوئے۔ جس میں چار سو سے پانچ سو افراد کا تعلق انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے حامل افراد سے تھا۔