دشمنوں کو جدید ہتھیار حاصل نہیں کرنے دیں گے، اسرائیل
16 ستمبر 2018
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ ان کا ملک اپنے دشمنوں کو جدید ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔ دمشق نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اسرائیلی میزائلوں نے دمشق ایئرپورٹ کو نشانہ بنایا۔
اشتہار
شامی نیوز ایجنسی SANA نے بتایا تھا کہ اسرائیلی میزائلوں نے ہفتہ 15 ستمبر کی شب شامی دارالحکومت دمشق کے بین الاقوامی ایئرپورٹ کو نشانہ بنایا۔ تاہم اسرائیل کی طرف سے نہ تو اس خبر کی تردید کی گئی اور نہ ہی تصدیق۔
نیتن یاہو کے دفتر کی طرف سے آج اتوار کے روز جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق انہوں نے کابینہ کی ہفتہ وار میٹنگ کے آغاز میں کہا، ’’اسرائیل ہمارے دشمنوں کو جدید ہتھیاروں سے خود کو مسلح کرنے سے روکنے کے لیے مسلسل کام کر رہا ہے۔‘‘ اسرائیلی وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا، ’’ہماری سُرخ لکیریں ہمیشہ سے بہت واضح ہیں اور ان پر عمل کرنے کا ہمارا عزم پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔‘‘
شامی نیوز ایجنسی SANA نے شامی فوجی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ دمشق حکومت کے فضائی دفاعی نظام نے اس حملے کے دوران کئی ایک میزائلوں کو راستے ہی میں مار گرایا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق شامی خانہ جنگی پر نظر رکھنے والی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق اس حملے میں دمشق ایئرپورٹ کے قریب واقع ایک اسلحہ ڈپو کو نشانہ بنایا گیا۔
اسرائیل اس بات کا عزم ظاہر کر چکا ہے کہ وہ اپنے حریف ملک ایران کو خانہ جنگی کے شکار اپنے ہمسایہ ملک شام میں فوجی قوت نہیں بڑھانے دے گا۔ خیال رہے کہ ایران شامی صدر بشار الاسد کا سب سے بڑا حلیف ہے اور باغیوں کے خلاف کارروائیوں میں شامی حکومت کی بھرپور مدد کر رہا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق رواں ماہ کے آغاز میں اسرائیل نے یہ تسلیم کیا تھا کہ اس نے گزشتہ 18 ماہ کے دوران شام کے اندر 200 سے زائد فضائی حملے کیے اور یہ ان میں سے زیادہ تر حملوں میں ایرانی اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔
اسرائیل کی طرف سے یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ اس نے لبنان کی تنظیم حزب اللہ کو جدید ہتھیاروں سے لیس کرنے کی کوشش سے روکنے کے لیے شامی اہداف کو بھی نشانہ بنایا۔ حزب اللہ شامی فورسز کے ساتھ باغیوں کے خلاف لڑ رہی ہے۔
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں یروشلم ایک اہم وجہ اختلاف قرار دیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں یہ شہر کیسا تھا اور اب تقریبا پچاس برس بعد یہ کیسا دکھتا ہے؟
تصویر: Reuters/A. Awad
آج کا ’جبل زیتون‘
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’جبل زیتون‘
عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ پانچ سے دس جون تک جاری رہی تھی۔ یہ تصویر سات جون سن 1967 کو لی گئی تھی۔ اگر اس تصویر میں قدیمی شہر واضح نہ ہوتا تو دیکھنے والا شائد سمجھ نہ سکتا کہ یہ کون سا مقام ہے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
آج کی الاقصیٰ مسجد
یہ مسجد ٹمپل ماؤنٹ میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے بلکہ یہودیت میں بھی اسے بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی روایات کے مطابق اسی مقام پر دو انتہائی مقدس ٹمپل تھے، جن کا تذکرہ بائیبل میں بھی ملتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام میں یہ تیسرا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔ اسی طرح مسیحیت میں بھی ٹمپل ماؤنٹ مذہبی اعتبار سے بہت مقدس ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کی الاقصیٰ مسجد
الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔
تصویر: Reuters/
آج کا ’باب دمشق‘
یروشلم کا یہ تاریخی دروازہ قدیمی شہر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی علاقے میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کل یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’باب دمشق‘
یہ دروازہ جولائی سن 1537 میں عثمانیہ دور کے سلطان سلیمان نے بنوایا تھا۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لے گئی ہے، جس میں یہ دروازہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ قدیمی شہر میں داخل ہونے کے سات دروازے ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔
تصویر: Reuters/
آج کا قدیمی شہر
یروشلم کا قدیمی شہر سن انیسو اکیاسی سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مختلف مذاہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مسجد الاقصیٰ اور گنبد الصخرہ کے علاوہ یہودیوں کا ٹمپل ماؤنٹ اور ویسٹرن وال بھی یہیں واقع ہیں جبکہ مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ’چرچ آف دی ہولی سپلکر‘ بھی یروشلم میں ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کا قدیمی شہر
یہ مقام ہمیشہ سے ہی انتہائی مصروف رہا ہے، جہاں دکانیں بھی ہیں اور سیاحوں کے لیے دلکش مناظر بھی۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لی گئی تھی۔ پچاس سال بعد بھی یروشلم کے اس قدیمی بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ تب بھی انتہائی شاندار تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔
تصویر: Reuters/Fritz Cohen/Courtesy of Government Press Office
آج کی ’مغربی دیوار‘
ویسٹرن وال (مغربی دیوار) یا دیوار گریہ یہودی مذہب میں بہت زیادہ مقدس تصور کی جاتی ہے۔ یہودی مذہب کے ماننے والے اس دیوار کو چھو کر اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس دیوار کی زیارت کی خاطر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ مقامات تفویص بھی کیے گئے ہیں تاہم یہاں ہر کوئی سکیورٹی چیک کے بعد جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کی ’مغربی دیوار‘
مغربی دیوار (ویسٹرن وال) کو دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہودی مذہب میں اسے حقارت آمیز اصطلاح تصور کیا جاتا ہے اور یہودی اسے اس نام سے نہیں پکارتے۔ یہ تصویر یکم ستمبر سن 1967 میں لی گئی تھی۔