امن کے لیے خود کوشش کریں، دلائی لامہ
16 نومبر 2015ان کا کہنا ہے کہ انسانی اقدار کے فروغ کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ دلائی لامہ کو تبت کی آزادی کے لیے کئی دہائیوں سے جاری تحریک اور انسان دوست اقدامات کی وجہ سے جانا جاتا ہے اور انہیں 1989ء میں امن کا نوبل انعام بھی دیا گیا تھا۔ دلائی لامہ 1959ء میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرتے ہوئے بھارت آ گئے تھے اور اس وقت سے بھارتی ریاست ہماچل پردیش کے شہر دھرم شالا میں مقیم ہیں۔
ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں 80 سالہ دلائی لامہ نے پیرس حملوں کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا: ’’بیسویں صدی تشدد آمیز تھی اور جنگوں اور تنازعات کے باعث اس صدی کے دوران 200 ملین سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ ہم آج بھی گزشتہ صدی سے جاری تشدد کا تسلسل دیکھ رہے ہیں۔ اگر ہم عدم تشدد اور باہمی مطابقت پر زور دیں تو ہم ایک نئی ابتداء کر سکتے ہیں۔ جب تک ہم امن کے حصول کے لیے سنجیدہ کوششیں نہیں کریں گے تو ہم بیسویں صدی میں انسانیت کو لاحق رہنے والی تکالیف کا تسلسل دیکھتے رہیں گے۔‘‘
14 نومبر کو بھارتی شہر جالندھر میں رپورٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے دلائی لامہ کا کہنا تھا، ’’لوگ پر امن زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ دہشت گرد نا عاقبت اندیش ہیں اور یہ خودکش حملوں میں اضافے کی ایک وجہ ہے۔ ہم یہ مسئلہ صرف دعاؤں سے حل نہیں کر سکتے۔ میں ایک بودھ ہوں اور دعاؤں پر یقین رکھتا ہوں۔ مگر انسانوں نے یہ مسئلہ پیدا کیا ہے اور اب ہم خدا سے کہہ رہے ہیں کہ وہ یہ مسئلہ حل کرے۔ یہ غیر منطقی بات ہے۔ خدا کہے گا کہ خود ہی یہ مسئلہ حل کرو کیونکہ تمھی نے یہ پیدا کیا ہے۔‘‘
دلائی لامہ کا مزید کہنا تھا، ’’ہمیں انسانی اقدار، یکجہتی اور مطابقت کے لیے ایک منظم طریقہ کار اختیار کرنا پڑے گا۔ اگر ہم نے اس کا آغاز آج کر دیا تو اس بات کی امید موجود ہے کہ یہ صدی گزشتہ صدی کے مقابلے میں مختلف ہو گی۔ یہ ہر ایک کے حق میں ہے۔ لہٰذا ہمیں امن کے لیے اپنے خاندانوں کے اندر اور معاشرے میں کوشش کرنی چاہیے اور خدا، بدھا یا حکومت سے مدد کی امید نہیں کرنی چاہیے۔‘‘
ڈوئچے ویلے کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے دلائی لامہ کا مزید کہنا تھا، ’’ہم جن مسائل کا سامنا آج کر رہے ہیں وہ مذاہب اور اقوام کے درمیان سطحی نوعیت کی تفاوتوں کا نتیجہ ہیں۔ ہم سب لوگ ایک ہیں۔‘‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہماری مشکلات اس وقت تک بڑھتی رہیں گی جب تک ہم اخلاقی اصولوں کو پیسے پر فوقیت نہیں دیں گے: ’’اخلاقیات ہر ایک کے لیے اہم ہے۔ ان میں مذہبی لوگ بھی شامل ہیں اور سیاست دان بھی۔‘‘