1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دفاعی معاہدہ: امریکی، افغان مذاکرات کا دوسرا روز

زبیر بشیر12 اکتوبر 2013

افغان صدر حامد کرزئی اور امریکی وزیر خارجہ کے درمیان مذاکرات آج دوسرے بھی جاری رہے۔ ان مذاکرات کا مقصد سن 2014ء کے بعد افغانستان میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کے بارے میں ایک دو طرفہ دفاعی معاہدے کو حتمی شکل دینا ہے۔

تصویر: Reuters

افغانستان میں امریکی فوجوں کے مستقبل میں کردار کے حوالے سے یہ معاہدہ ایک عرصے سے التوا کا شکار چلا آ رہا ہے۔ امریکی انتظامیہ اس معاہدے کی اہمیت کے پیشِ نظر یہ خواہش رکھتی ہے کہ اس کے حوالے سے کوئی بھی حتمی فیصلہ رواں ماہ کر لیا جائے۔

دوسری جانب افغان صدر کا مؤقف ہے کہ اس معاہدے کو اپریل 2014ء کے صدارتی انتخابات کے بعد حتمی شکل دی جانی چاہیے۔

جان کیری گذشتہ روز اچانک کابل پہنچے تھےتصویر: Reuters

گذشتہ روز مذاکرات کے بعد صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے امریکی وزارتِ خارجہ کے اعلیٰ حکام کا کہنا تھا،’’آج کی ساری گفتگو کے دوران لب ولہجہ حوصلہ افزا تھا۔‘‘ اس حوالے سے مزید کہا گیا،’’ ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اختلافی امور پر اب پہلے سے زیادہ اتفاق رائے نظر آرہا ہے۔‘‘

افغان صدر حامد کرزئی کے ترجمان نے اس حوالے سے کہا،’’مذاکرات مثبت انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں۔‘‘

اس سے قبل افغان قائدین کا یہ موقف رہا ہے کہ وہ کسی صورت امریکا کے اس مطالبے کو تسلیم نہیں کر سکتے کہ واشنگٹن حکومت، کابل حکومت کی اجازت کے بغیر ملک میں تنہا ہی کسی قسم کی کارروائی کر سکتا ہے۔ یہی وہ امور ہیں، جن کی وجہ سے اس معاہدے کو حتمی شکل نہیں دی جاسکی۔

کیری اور کرزئی کے درمیان یہ مذاکرات ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب امریکا نے پاکستانی طالبان کے ایک اہم رہنما لطیف محسود کو گرفتار کیا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کی نائب ترجمان میری ہیرف نے اس حوالے سے جمعے کے روز بتایا کہ امریکی فورسز نے ایک عسکری کارروائی کے دوران دہشت گردوں کے اس رہنما کو گرفتار کر لیا ہے۔

دو طرفہ سلامتی کا یہ معاہدہ قریب ایک سال سے زیرِ التوا ہے۔تصویر: picture-alliance/AP Images

انہوں نے محسود کو تحریک طالبان پاکستان کا ایک سینیئر کمانڈر قرار دیا۔

دو طرفہ سلامتی(BSA) کا یہ معاہدہ قریب ایک سال سے زیرِ التوا ہے۔ اس معاہدے کے دو اہم اختلافی امور میں امریکی فوجوں کو افغانستان میں یکطرفہ کارروائی کرنے کی اجازت دینا اور کسی بھی جنگی صورتِ حال میں امریکی افواج کی جانب سے افغانستان کی مدد کرنا شامل ہیں۔

افغان حکام امریکا کو سن 2014 کے بعد اپنے ملک میں کسی بھی آزادانہ کارروائی کرنے کی اجازت دینے کے حق میں نہیں ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں