بھارت اور چین کے مابین موجودہ نازک رشتوں کے مدنظر مودی حکومت نے اپنے وزراء، رہنماؤں اور اعلیٰ حکومتی افسران کو ہدایت دی ہے کہ تبتیوں کے روحانی رہنما دلائی لامہ کی کسی بھی تقریب میں شرکت نہ کریں۔
اشتہار
اس غیر معمولی پیش رفت سے پیدا تنازع کے بعد بھارت نے صورت حال کو بگڑنے سے بچانے کے لئے آناً فاناً قدم اٹھاتے ہوئے اعلان کیا کہ تبت کے حوالے سے اس کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے اس تناظر میں ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا،’’دلائی لامہ کے حوالے سے بھارت کا موقف بالکل واضح ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ قابل احترام دلائی لامہ بھارت کے لوگوں کے لئے ہمیشہ محترم اور قابل عزت ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔ انہیں بھارت میں اپنی ہر طرح کی مذہبی سرگرمیاں انجام دینے کی پوری آزادی ہے۔‘‘
دراصل یہ پورا تنازعہ اُس وقت پیدا ہوا جب مؤقر انگلش روزنامے ’انڈین ایکسپریس‘ نے ایک رپورٹ شائع کی ۔ اس رپورٹ کے مطابق وفاقی کابینہ سکریٹری پی کے مشرا نے تمام محکموں کے اعلی افسران کو ایک تحریر بھیج کر ہدایت دی ہے کہ دلائی لامہ کی جلاوطنی کے ساٹھ برس مکمل ہونے کی مناسبت سے منعقد ہونے والی تقریبات میں رہنماؤں اور حکومتی افسران کو شامل نہ ہونے کا حکم دیا جائے۔ ہدایت نامے میں مزید کہا گیا تھا کہ حکم عدولی کرنے والے افسران کے خلاف سخت کارروائی کی جاسکتی ہے۔
یہ ہدایت نامہ چین میں بھارت کے سابق سفیر اور موجودہ خارجہ سکریٹری وجے گوکھلے کے اس خط کی بنیاد پر جاری کیا گیا ،جس میں گوکھلے نے تمام وزارتوں اور حکومتی محکموں کے علاوہ صوبائی حکومتوں کو بھی یہ ہدایت جاری کرنے کی درخواست کی تھی کہ دلائی لامہ کے حوالے سے کسی بھی تقریب کا دعوت نامہ قبول نہ کیا جائے۔
اخبار کے مطابق گوکھلے نے کہا تھا کہ چونکہ بھار ت اور چین کے تعلقات ان دونوں حسّاس دور سے گذر رہے ہیں اور دونوں ملک باہمی رشتوں کو بہتر بنانے کی کوشش کررہے ہیں اس لئے اس طرح کا کوئی بھی قدم سفارتی کوششوں پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔
بھارت اور چین کے درمیان کئی باہمی تنازعات ہیں۔ دونوں کے درمیان 1962میں جنگ بھی ہوچکی ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین 3488 کلومیٹر طویل حقیقی کنٹرول لائن پر کشیدگی کے علاوہ کئی دیگر تنازعات ہیں۔ بھارت کو چین پاکستان اقتصاد ی کوریڈور پر اعتراض ہے۔ بھارت کا الزام ہے کہ چین جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کو اقو ام متحدہ کی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے کی بھارت کی کوششوں نیز نیوکلیئر سپلائر گروپ میں اس کی شمولیت کی راہ میں مسلسل رکاوٹ ڈال رہا ہے۔ تبت کا مسئلہ بھی بھارت چین تعلقات میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ تبت کے حوالے سے چین کا موقف کافی سخت ہے ۔ وہ دلائی لامہ کو ایک خطرناک دہشت گرد قرا ردیتا ہے۔
دوسری طرف بھارت تبتیوں کے تئیں مسلسل ہمدردانہ پالیسی پر عمل پیرا رہا ہے۔ وہ تبت کو ایک خودمختارخطے کے طورپر تسلیم کرنے کے اپنے موقف پر قائم ہے۔ ساٹھ سال قبل کمیونسٹ حکومت کے خلاف ناکام بغاوت کے بعد دلائی لامہ اپنے اسّی ہزارحامیوں کے ساتھ تبت سے فرار ہوئے تو بھارت نے انہیں پناہ دی تھی۔
اس وقت بھارت کے دھرمشالہ نامی مقام پر تبتیوں کی جلاوطن حکومت کا سکریٹریٹ ہے ۔دلائی لامہ بھی وہیں رہتے ہیں۔جلاوطنی کی زندگی گذارنے والے تقریباً ایک لاکھ چالیس ہزار تبتیوں میں سے ایک لاکھ سے زائد بھارت کے مختلف حصوں میں مقیم ہیں۔
دلائی لامہ اپنی جلاوطنی کے ساٹھ سال مکمل ہونے پر قومی دارالحُکومت میں یکم اپریل کو ’تھینک یو انڈیا‘ کے نام سے ایک بڑا پروگرام کرنے جا رہے ہیں، جس میں وہ اہم بھارتی رہنماؤں کو مدعوکرنے والے ہیں۔تاہم کابینہ سکریٹری کے ہدایت نامہ کے بعد اس پروگرام پر اثر پڑنا یقینی ہے۔
یہاں تجزیہ کار مودی حکومت کے اس قدم کو دلائی لامہ کے حوالے سے بھارت کے موقف میں واضح تبدیلی قرا ردے رہے ہیں۔ معروف تھنک ٹینک سینٹر فار پالیسی ریسرچ میں اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے پروفیسر برہم چیلانی نے بھارت کے مؤقف کو’افسوسناک ‘ قرار دیا ۔ برہم چیلانی نے ٹوئٹ کرکے کہا،’’چین کے ذریعہ برہم پتر اور ستلج ندیوں کے پانی کے متعلق اعدادوشمارنہیں بتانے اور تبت میں ہندووں کے دو متبرک مقامات تک عقیدت مندوں کی رسائی روک دینے کے باوجودبھارت باہمی معاہدوں کی خلاف ورزی کرنے پر چین کے خلاف کوئی احتجاج نہیں کرسکا اور اب یہ نیا معاملہ ہے۔ بھارت بالکل برعکس سمت میں جارہا ہے۔‘‘
بھارت اور چین کے مابین سرحدی تنازعہ کیوں؟
بھارت اور چین کے مابین سرحدی تنازعہ عشروں پرانا ہے۔ یہ تنازعہ تبت کے چین میں شامل کیے جانے سے شروع ہوا تھا۔ اس تنازعے کے اہم نکات پر ایک نظر:
تصویر: Getty Images/AFP/I. Mukherjee
طویل تنازعہ
قریب 3500 کلومیٹر طویل مشترکہ سرحد کی حدیں کیا ہونی چاہییں؟ اسی معاملے پر دونوں ہمسایہ ممالک نے سن 1962 میں ایک جنگ بھی لڑی لیکن کوئی تصفیہ پھر بھی نہ ہو سکا۔ ناقابل رسائی علاقے، غیر حتمی سروے اور برطانوی سامراجی دور کے نقشے نے اس تنازعے کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ دنیا کی دو بڑی اقتصادی طاقتوں کے درمیان سرحد پر کشیدگی ان کے اپنے اور پوری دنیا کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
تصویر: Getty Images
اکسائی چین
كاراكاش دریا پر سمندر سے 14 ہزار فٹ سے لے کر 22 ہزار فٹ تک کی بلندی پر موجود اکسائی چین کا زیادہ تر حصہ ویران ہے۔ 32 ہزار مربع کلومیٹر میں پھیلا یہ علاقہ پہلے ایک کاروباری راستہ تھا اور اسی وجہ سے اس کی بڑی اہمیت بھی ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ چین نے جموں کشمیر کے اکسائی چین میں اس کے 38 ہزار مربع کلومیٹر علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے۔
تصویر: Vogel/Bläse
اروناچل پردیش
چین دعویٰ کرتا ہے کہ میکموہن لائن کے ذریعے بھارت نے اروناچل پردیش میں اس کا 90 ہزار مربع کلومیٹر علاقہ دبا لیا ہے جبکہ بھارت اس علاقے کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے۔ ہمالیہ کے علاقے میں اس سرحدی تنازعے کے حل کی خاطر سن 1914 میں برٹش انڈیا اور تبت کے درمیان شملہ میں ایک کانفرنس کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dinodia
کس نے کھینچی یہ لائن
برطانوی نوآبادیاتی انتظامیہ نے وہ میكموہن لائن کھینچی تھی، جس نے برطانوی بھارت اور تبت کے درمیان سرحدی علاقے کو تقسیم کر دیا تھا۔ چین کے نمائندے شملہ کانفرنس میں موجود تھے لیکن انہوں نے اس معاہدے پر دستخط کرنے یا اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ تبت چینی انتظامیہ کے تحت ہے، اس لیے تبت کو دوسرے ملک کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
تصویر: Imago
بین الاقوامی سرحد
سن 1947 میں آزادی کے بعد بھارت نے میكموہن لائن کو سرکاری سرحدی لائن کا درجہ دے دیا۔ اگرچہ 1950ء میں تبت پر چینی کنٹرول کے بعد بھارت اور چین کے درمیان یہ لائن ایسی متنازعہ سرحد بن گئی تھی، جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا تھا۔ چین میكموہن لائن کو غیر قانونی، نوآبادیاتی اور روایتی قرار دیتا ہے جبکہ بھارت اسے بین الاقوامی سرحد کی حیثیت دیتا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Sagol
معاہدہ
بھارت کی آزادی کے بعد سن 1954 میں بھارت اور چین کے درمیان تبت کے علاقے میں تجارت اور نقل و حرکت کے لیے ایک معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کے بعد بھارت نے سمجھا کہ اب سرحدی تنازعے کی کوئی اہمیت نہیں رہی اور چین نے اس کی تاریخی حیثیت کو قبول کر لیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Bildagentur-online
چین کا موقف
چین کا کہنا ہے کہ اس متنازعہ سرحد پر بھارت کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہوا اور بھارت تبت پر چینی حاکمیت کو تسلیم کرے۔ اس کے علاوہ چین کا یہ بھی کہنا ہے کہ میكموہن لائن پر بیجنگ کو آج بھی تحفظات ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Baker
سکم
سن 1962 میں چین اور بھارت کے درمیان جنگ ہوئی۔ مہینہ بھر جاری رہنے والی اس جنگ میں چینی فوج بھارت علاقوں لداخ اور اروناچل پردیش میں بھی گھس گئی تھی۔ تاہم بعد ازاں چینی فوج حقیقی کنٹرول لائن پر واپس لوٹ گئی تھی۔ اسی مقام پر بھوٹان کی سرحد بھی ہے۔ سکم وہ آخری علاقہ ہے، جہاں تک بھارت کو رسائی حاصل ہے۔ سکم کے کچھ علاقوں پر بھوٹان کا بھی دعویٰ ہے اور بھارت اس دعوے کی حمایت بھی کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images
مان سروَور
چین کے خود مختار علاقے تبت میں واقع مان سروَور ہندوؤں کا اہم مذہبی مقام ہے، جس کی یاترا کے لیے ہر سال ہندو وہاں جاتے ہیں۔ بھارت اور چین کے کشیدہ تعلقات کا اثر ہندوؤں کے لیے اس مقدس مقام کی یاترا پر بھی پڑا ہے۔ موجودہ تنازعہ شروع ہونے کے بعد چین نے بھارتی ہندوؤں کو وہاں مشرقی راستے سے ہو کر جانے سے روک دیا تھا۔
تصویر: Dieter Glogowski
مذاکراتی تصفیے کی کوشش
بھارت اور چین کی جانب سے گزشتہ 40 برسوں میں اس تنازعے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی بہت کوششیں کی گئیں۔ اگرچہ ان کوششوں سے اب تک کوئی خاص نتائج حاصل نہیں ہو سکے تاہم چین کئی بار کہہ چکا ہے کہ اس نے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ سرحدی تنازعے بات چیت سے حل کر لیے ہیں اور بھارت کے ساتھ یہ معاملہ بھی نمٹ ہی جائے گا۔ لیکن دوطرفہ مذاکرات کے 19 طویل ادوار کے بعد بھی اس سلسلے میں اب تک کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔