کرکٹر کی شادی کے لباس ميں کرکٹ کھيلتے تصوير مسئلہ بن گئی
22 اکتوبر 2020
بنگلہ ديشی خاتون کرکٹر سنجيدہ اسلام کی شادی کے لباس ميں کرکٹ کھيلتے ہوئے ايک تصوير گزشتہ ہفتے وائرل ہو گئی، جس پر ايک تنازعہ کھڑا ہو گيا۔ چند افراد اسے ملکی ثقافت و اسلامی اقدار کے خلاف قرار دے رہے ہيں۔
اشتہار
بنگلہ ديش کی ايک خاتون کرکٹر کی ايک معصوم اور بظاہر غير دانستہ حرکت نے ان کے ليے ايک تنازعہ کھڑا کر ديا ہے۔ سنجيدہ اسلام کی ايک تصوير گزشتہ دنوں سماجی رابطوں کی ويب سائٹس پر وائرل ہو گئی، جس کے بعد اکثريتی صارفين نے تو انہيں کافی سراہا مگر چند نے اسے 'غير اسلامی فعل‘ بھی قرار ديا۔
سنجيدہ اسلام نے مذکورہ تصوير پچھلے ہفتے شيئر کی۔ اس تصوير ميں وہ نارنجی رنگ کے دلہن کے لباس ميں ملبوس ہيں اور کرکٹ کے ميدان ميں بلا اٹھا کر کھيل رہی ہيں۔ سنجيدہ نے چوڑياں بھی پہن رکھی ہيں، جو ان کی نارنجی ساڑھی سے ملتی جھلتی ہيں۔ انٹرنيشنل کرکٹ کونسل نے بھی سنجيدہ کی تصوير شيئر کی اور ساتھ ہی لکھا، ''لباس، زيورات اور کرکٹ کا بلا۔‘‘ آئی سی سی نے اپنے ٹوئٹر اکاونٹ سے اس تصوير کو لاکھوں لوگوں تک ری ٹوئيٹ کيا۔
دريں اثناء سنجيدہ اسلام کے اپنے ملک بنگلہ ديش ميں چند لوگوں نے اس ميں مذہبی عنصر تلاش کرتے ہوئے تصوير کو 'بنگلہ ديشی و اسلامی ثقافت کی خلاف ورزی‘ قرار ديا۔ ايک صارف نے فيس بک پر لکھا، ''اس ميں ايسا کچھ نہيں کہ کسی اسلامی سوسائٹی ميں اس پر عمل کيا جا سکے۔‘‘ کئی صارفين نے تو ملکی کرکٹر کے ليے سخت سزا کی تائيد بھی کی۔
البتہ زيادہ تر صارفين نے سنجيدہ کی حمايت کی۔ ايک صارف نے تصوير کے بارے ميں لکھا، ''يہ بدلتے ہوئے اور آگے بڑھتے ہوئے بنگلہ ديش کی عکاسی کرتی ہے۔‘‘
سنجيدہ اسلام نے بنگلہ ديش کے ليے سولہ ايک روزہ ميچز اور چون ٹی ٹوئنٹی ميچز کھيل رکھے ہيں۔ انہوں نے اس تنازعے کے بارے ميں کہا کہ ان کا بلے کے ساتھ تصوير کھنچوانے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ اسٹيڈيم گئيں اور چند بچوں کو کھيلتا ديکھ کر ان سے رہا نہ گيا۔ بس بلا اٹھايا اور کھيلنے لگيں۔ اتنے ميں ان کے کسی ساتھی نے تصوير بھی کھينچ لی۔ سنجيدہ کے بقول انہوں نے يونہی کچھ سوچے سمجھے بغير يہ تصوير فيس بک اور انسٹاگرام پر شيئر کی تھی۔
غیر سنسر شدہ: مسلم خواتین حقوق نسواں کے بارے میں کیا کہتی ہیں
ناروے کی خاتون ادیبہ بریجیٹی سی ہوئیٹفیلڈ نے اپنی نئی کتاب میں مختلف مسلم خواتین سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ پردے کے ساتھ یا پردے کے بغیر دونوں صورتوں میں وہ ایک مسلم معاشرے میں اپنے عورت ہونے کو کیسے دیکھتی ہیں۔
تصویر: Nawal El Saadawi
مصر میں حقیقی آزادی کی ضرورت
کتاب کا آغاز معروف مصری خاتون ایکٹیوسٹ، ڈاکٹر اور مصنفہ نوال الصداوی سے ہوتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کی خواتین اپنے جائز مقام کی جنگ میں اب تک کامیاب کیوں نہیں ہو سکیں، اس کے جواب میں الصداوی کہتی ہیں،’’جو پدرانہ، سماجی اور فوجی نظام ہماری زندگیوں کو طے کرتا ہے، اس میں خواتین کو آزادی نہیں مل سکتی۔‘‘
تصویر: Nawal El Saadawi
جلا وطن شامی ماہر نفسیات رفاہ ناشید
شامی ماہر نفسیات رفاہ ناشید کو ستمبر سن 2011 میں خوفزدہ اسد مخالف مظاہرین کی مدد کے لیے میٹنگ بلانے کے بعد گرفتار کر لیا گیا تھا۔ دو ماہ بعد اُنہیں آزاد تو کر دیا گیا لیکن اب وہ پیرس میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ وہ اس کتاب میں کہتی ہیں،’’عرب معاشرے میں تبدیلی کو مسترد کیا جاتا ہے کیوں کہ جو بھیڑ کا حصہ نہیں بنتا اسے ملحد یا معمول کے خلاف تصور کر لیا جاتا ہے۔
تصویر: Liberation
لوگوں کا انتخاب جمہوریت ہے
ایرانی خاتون وکیل شیریں عبادی نے اپنی زندگی کا مقصد خواتین، بچوں اور مہاجرین کے حقوق کے لیے جنگ کو بنا لیا ہے۔ سن 2003 میں عبادی کو امن کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔ وہ ’ ان سنسرڈ‘ میں کہتی ہیں، ’’جمہوریت کسی مشرق یا مغرب کو نہیں جانتی۔ جمہوریت لوگوں کی مرضی کا نام ہے، اس لیے میں جمہوریت کی مختلف صورتوں کو نہیں مانتی۔‘‘
تصویر: Shirin Ebadi
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن
خاتون فلسطینی قانون ساز، اسکالر اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکن حنان عشروی اس کتاب میں لکھتی ہیں، ’’یقیناﹰ قبضہ مردوں کا ہے، خاص طور پر فوجی قبضہ ۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازعہ بھی مردوں کا کھڑا کیا ہوا ہے۔ اور ہم خواتین کو اسے ختم کرنا ہے۔‘‘
تصویر: Hanan Ashrawi
یمنی مردوں کو خواتین سے خوف کیوں؟
سن دو ہزار سولہ میں اقوام متحدہ کے صنفی مساوات انڈیکس میں آخری نمبر پر آنے والے ملک یمن کی امل باشا خواتین کے حقوق کی پیرو کار ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یمن میں خواتین کے معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق پر شرعی قوانین کے ذریعے قدغن لگائی جاتی ہے۔ لیکن ایسا کیوں ہے؟ باشا کے مطابق مرد خواتین سے اس لیے ڈرتے ہیں کیوں کہ عورتیں امن کی آواز ہیں۔
تصویر: Salzburg Global Seminar
لیبیا میں امید کی کرن
لیبیا کی حجر شریف اقوام متحدہ کی مشاورتی کمیٹی اور کوفی عنان فاؤنڈیشن کی رکن ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ لیبیا میں خانہ جنگی ختم کرنے کے لیے دونوں اصناف کو اپنا رویہ تبدیل کرنا ہو گا۔ شریف ’ان سنسرڈ‘ میں کہتی ہیں،’’اگر آپ دیکھیں تو لیبیا میں مائیں اپنے بیٹوں کو جنگ پر جانے کے لیے خود آمادہ کرتی ہیں۔ اگرچہ وہ خود جنگ کا حصہ نہیں ہیں لیکن لیبیا میں جاری پر تشدد کارروائیوں میں حصہ دار ضرور ہیں۔‘‘
تصویر: Nader Elgadi
اردن میں غیرت کے نام پر قتل
اردن کی رانا حسینی خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن اور صحافی ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل کے موضوع پر بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’اردن کا معاشرہ ہر بات کا ذمہ دار عورت کو ٹھہراتا ہے۔ ریپ کے لیے، ابنارمل بچے پیدا کرنے کے لیے، ہراساں کیے جانے کے لیے اور یہاں تک اُن کے شوہروں کے دوسری خواتین کے ساتھ تعلقات کے لیے بھی عورت ہی کو ذمہ دار مانا جاتا ہے۔‘‘