1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

محبت ناکام ہو تو رونے کے بجائے کیا کرنا چاہیے؟

8 جون 2024

دل ٹوٹنے پر صرف نفیساتی و روحانی صدمہ ہی نہیں ہوتا بلکہ ایک خاص درد دل و جگر تک محسوس ہوتا ہے۔ محبت میں ناکامی تکلیف کا باعث کیوں بنتی ہے؟ جذباتی تعلق ختم ہونے پر رونا کیوں آتا ہے؟ اس کی نفسیاتی وجوہات کیا ہیں؟

Symbolbild | Zwei Frauen arm in arm beobachten den Sonnenuntergang
تصویر: Pond5 Images/IMAGO

ماہرین کے مطابق محبت میں ناکامی کی وجہ سے ہونے والے درد کی چار حالتیں ہوتی ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم اس صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیں، یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ کسی تعلق کے ختم ہونے سے پہلے کیا مرحلے آتے ہیں؟

کسی جوڑے کے درمیان بڑھتی ہوئی بے حسی کا پیدا ہونا اور پھر ہر بات پر بحث و تکرار۔ یہ ابتدائی آثار ہوتے ہیں۔ 

تعلقات میں بگاڑ پیدا ہونے میں مہینوں یا سالوں کا وقت لگ سکتا ہے لیکن پھر یک دم ایسا احساس ہونے لگتا ہے کہ اب اکٹھا نہیں رہا جا سکتا۔ کچھ لوگوں کو تو اس کا اچانک ہی احساس ہوتا ہے اور اسی لیے انہیں تکلیف بھی زیادہ ہی ہوتی ہے۔

جس نے چھوڑا ہے اور جو چھوڑ دیا گیا ہے، ان دونوں افراد کی کیفیات مختلف ہوں گی۔ جب کوئی جوڑا علحیدگی کا فیصلہ باہمی طور پر کرتا ہے تو ان دونوں افراد کی کیفیات اور احساسات بھی مختلف ہوں گے۔

ایک رشتے کا اختتام، بہت سے لوگوں کے لیے ایک تکلیف دہ عمل کا آغاز بن جاتا ہے۔ ماہر نفسیات ڈورس وولف کا کہنا ہے کہ ایسا محسوس ہو سکتا ہے کہ زندگی تباہ ہو گئی ہے اور اب جینے کا کوئی مقصد نہیں رہا۔ لیکن وقت تمام زخموں کو مندمل کرنے کا باعث بن جاتا ہے۔

محبت میں اتنی کشش کیوں? اور ’وفاداری‘ پر اتنا زور کیوں؟

محبت بھرے تعلق اور رشتے کو شدید نقصان پہنچانے والی بیماری

علیحدگی کے چار مرحلے

ابتدائی صدمے اور عدم اعتماد کے بعد فوری طور پر لڑنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور بچھڑنے والے شخص کو واپس جیتنے کی کچھ شرمناک کوششیں کی جاتی ہیں۔ اس میں ناکامی کے بعد غم، مایوسی، احساس جرم، تلخی اور غصے کا جذباتی طوفان آتا ہے۔

ڈورس وولف کے مطابق جذباتی تعلق ختم ہوتے ہی ایک افراتفری کا عالم محسوس ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ عجیب و غریب کیفیت ہوتی ہے، جس کے چار مراحل ہوتے ہیں۔

وولف کہتی ہیں کہ لوگوں کو یہ علم ہونا چاہیے کہ کوئی بھی تعلق ختم ہونے سے زندگی ختم نہیں ہوتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دراصل یہی ادراک لوگوں کو معمول کی زندگی کی طرف لوٹنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔

کچھ ماہرین نفسیات کے مطابق لازمی نہیں کہ ہر شخص انہی چار مراحل سے گزرے لیکن وولف اس ماڈل پر عمل کرتے ہوئے ہی لوگوں کو نفسیاتی مدد فراہم کرتی ہیں۔

  • انکار (ڈنائیل)

  • بھڑکتے ہوئے جذبات  پیدا ہونا

  • نیا رخ اختیار کرنا

  • مستقبل کے امکانات پرکھنا

ان چاروں مراحل کا اپنا اپنا دورانیہ ہوتا ہے۔ وولف کے مطابق جب کوئی محبت میں ناکامی کے باعث ایک خاص لمحے میں قید ہو جاتا ہے تو اسے احساس دلانا ہوتا ہے کہ وقت تھمے گا نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ تعلق ختم ہونے کا درد خطرناک ضرور ہوتا ہے لیکن یہ دائمی ہر گز نہیں ہوتا۔

محبت قاتل؟ ڈیٹنگ ایپس خطرناک

05:16

This browser does not support the video element.

انکار: ’میں تمھارے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا‘

آپ اسے کال کرتے رہتے ہیں۔ یقین دلاتے ہیں کہ آپ بدل جائیں گے۔ آپ زیادہ محبت سے پیش آنے لگتے ہیں۔ علیحدگی میں جنسی تعلقات؟ یقینا، کیوں نہیں؟ تعلق بچانے کی خاطر یہ بھی کر لیا جاتا ہے۔

وولف کا کہنا ہے کہ جو لوگ ٹوٹتے تعلق کو بچانے کی کوشش میں ہوتے ہیں وہ بے بسی اور بدحواسی کے عالم میں چلے جاتے ہیں جبکہ ذلت کا خطرہ حقیقی معلوم ہونے لگتا ہے۔

علیحدگی سے انکار کی کیفیت اتنی شدید ہو سکتی کہ لوگ التباسات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان کا ساتھی تو طویل دورانیے کے لیے کاروباری سفر پر ہے یا  وہ تو اپنے عمر رسیدہ والدین کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔ وولف کہتی ہیں کہ علیحدگی کے بارے میں کھل کر گفتگو لازمی ہوتی ہے۔

وولف مشورہ دیتی ہیں کہ چھوڑنے والے شخص کی ہر ایسی شے پھینک دینا چاہیے، جو اس کی یاد دلانے کا باعث بن سکتی ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حقیقت قبول کرنا ہو گی کہ 'وہ چھوڑ کر جا چکا ہے‘، اس کے بعد ہی کوئی شخص آگے بڑھنے کے قابل ہو سکے گا۔

بھڑکتے ہوئے جذبات  پیدا ہونا: ’مجھے تم سے نفرت ہے یا میں تم سے اب بھی محبت کرتا ہوں وغیرہ‘

ماہر نفیسات وولف کے بقول جب تمام کوششیں ناکام ہو جاتی ہیں تو کربناک وقت شروع ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس مرحلے میں کچھ لوگ درد، تنہائی، خوف، غصے، خود پر شک کرنے اور جرم کے احساسات کا شکار ہو سکتے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ افسردگی اور اضطراب کی کیفیات کبھی ختم نہ ہوں گی لیکن اگر حقیقت تسلیم کر لی جائے تو جذباتی تعلق کے ختم ہونے کے علاوہ دیگر مسائل بھی حل ہو سکتے ہیں۔  ماہر نفسیات وولف کے مطابق  اس بدترین مرحلے سے بچنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ان جذبات کو قبول کیا جائے۔

منشیات، جنسی تعلقات یا بہت زیادہ کام جیسی سرگرمیوں کے ساتھ ان کیفیات کو دبانے کے بجائے ان جذبات کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ وولف کہتی ہیں کہ دوستوں سے کھل کر گفتگو بھی سکون کا باعث بن سکتا ہے

محبت کیا ہے؟

02:28

This browser does not support the video element.

نیا رخ اختیار کرنا: 'میں تمھارے بغیر زندہ رہ سکتا ہے‘

اس مرحلے میں نہ صرف یہ احساس ہوتا ہے کہ زندگی بسر ہو سکتی ہے بلکہ انسان اپنی زندگی کو دوبارہ انجوائے بھی کرنے لگتا ہے۔ احساس ہونے لگتا ہے کہ اپنے ختم ہو جانے والے کھوکھلے تعلق کی خاطر آپ نے اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو کتنا نظر انداز کیا، حالانکہ حقیقت میں تو یہی لوگ آپ کے خیر خواہ ہیں۔

پہلے دو مرحلوں میں انسان کے خیالات چھوڑ جانے والے شخص کے گرد گھومتے رہتے ہیں لیکن تیسرے مرحلے میں آنے والا غصہ اپنے آپ کو درست حالت میں لانے اور زندگی آگے بڑھانے میں مدد دیتا ہے۔

تم سے محبت کیوں ہے؟

محبت نگر: ہیر کے مزار پر ننگے پاؤں حاضری دینے والے عاشق

وولف کا کہنا ہے کہ 'اس مرحلے میں ایسے لمحات آتے ہیں، جب آپ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ آپ اپنے محبوب سے الگ ہو چکے ہیں۔‘ اسی مرحلے میں بہت سے لوگ نئے تعلقات استوار کرنا شروع کرتے ہیں۔

لیکن وولف کے بقول نیا تعلق شروع کرنے میں جلدی نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان باتوں پر غور کرنا چاہیے، جس کی وجہ سے پہلا تعلق ختم ہوا تھا۔ اگر ایسا کوئی شخص اپنے رویوں کی جانچ پڑتال کیے بغیر ایک نئی محبت میں مبتلا ہو گیا تو خدشہ ہے کہ وہ وہی پرانی والی غلطیاں دھرائے، جس کی وجہ سے اس کی پہلی محبت ناکام ہوئی تھی۔ 

مستقبل کے امکانات پرکھنا: ’اچھا تھا کہ تم اس وقت تھے اور اب نہیں ہو‘

یہ وہ مرحلہ ہے جس کے دوران بہت سے لوگوں نے وولف کو بتایا کہ 'تعلق ٹوٹنا سب سے اچھی چیز تھی، جو میرے ساتھ ہو سکتی تھی!‘‘ اس مرحلے میں لوگوں کو احساس ہوتا ہے کہ کسی تکلیف دہ تعلق کو توڑ دینا ہی اچھا ہوتا ہے اور انہوں نے اس تناظر میں درست قدم اٹھایا ہے۔

اس مقام تک پہنچنے کے لیے آپ کو غم، غصے، قبولیت اور کھوئے ہوئے تعلقات کے دردناک جائزے سے گزرنا پڑتا ہے۔ فریقین کی کوشش سے بگڑے ہوئے تعلق کو درست سمت میں لاتے ہوئے دوبارہ سے جذبات پیدا کیے جا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے دونوں افراد کو ایک دوسرے کے سوچ اور زندگی کے طرز کو قبول کرنا لازمی ہوتا ہے۔

جولیا ورجن (ع ب / ش ر)

کیا ڈیٹننگ ایپس واقعی کارآمد ہوتی ہیں؟

06:24

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں