برطانوی سائنس دانوں نے بدھ کے روز برین اسکینر یا دماغ کا اسکین کرنے والا ایک ہیلمٹ نما آلہ متعارف کروا دیا ہے، جس کی وجہ سے اب کوئی مریض دماغ کا اسکین کرواتے ہوئے آزادانہ طور پر حرکت کر پائے گا۔
اشتہار
اس قبل تو یوں ہوتا تھا کہ دماغ کا اسکین کرواتے ہوئے مریض ایک اسٹیچر پر لیٹتا تھا اور وہ پورا اسٹریچر حرکت کر کے اسکینگ مشین کے اندر داخل کیا جاتا تھا، تاہم یہ نیا ہیلمٹ نما اسکینر بڑی آسانی سے سر پر پہنا جا سکتا ہے۔
انسانی دماغ کے لیے خطرناک ترین کھیل
کھیل دراصل صحت کے لیے ایک فائدہ مند مصروفیت ہے۔ لیکن کئی برسوں تک مسلسل اور ضرورت سے زیادہ دباؤ والے کھیل نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں، خاص طور پر دماغ کے لیے۔
تصویر: picture alliance/dpa Marcus Brandt
ریسلنگ
ریسلنگ صرف ایک شو ہی نہیں بلکہ اس کھیل میں مسلسل چوٹوں کی وجہ سے متعدد پہلوانوں کے دماغوں کو واقعی نقصان پہنچا ہے۔ کینیڈین پہلوان کرس بینواٹ نے چالیس برس کی عمر میں خود کو گولی مار کر خودکشی کر لی تھی۔ ڈاکٹروں کے مطابق چالیس برس کی عمر میں ہی ان کا دماغ الزائمر کے پچاسی سالہ مریض کی طرح کا ہو چکا تھا۔
زیادہ دباؤ والے کھیل کھیلنے سے دماغ کو نقصان پہنچانے والی بیماری کو ڈاکٹر ’باکسر سنڈروم‘ کہتے ہیں۔ اس نام کا مطلب یہ ہے کہ سر کو مستقل جھٹکے دینے سے دماغ متاثر ہوتا ہے۔ نتیجتاﹰ انسان کی یادداشت کمزور، بولنے میں مشکل، خودکشی کے خیالات اور آخرکار ڈیمنشیا جیسے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ سب سے پہلے یہ بیماری ایک باکسر میں پائی گئی تھی، اسی وجہ سے اس کا یہ نام رکھا گیا۔
تصویر: picture alliance/dpa Marcus Brandt
امریکی فٹبال
’باکسر سنڈروم‘ بیماری صرف باکسرز ہی کو نہیں ہوتی، خاص طور پر ’امریکی فٹ بال‘ کے کھلاڑیوں میں بھی یہ بیماری اکثر پائی جاتی ہے۔ تحقیقی جریدے ’سائنس‘ کے مطابق نیشنل فٹبال لیگ کے کھلاڑیوں کے دماغ کو ایک سیزن کے دوران 600 سے زائد جھٹکے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ کھلاڑیوں کے ہیلمٹ بھی دماغ کو مثاثر ہونے سے محفوظ نہیں رکھ سکتے۔
تصویر: picture alliance/dpa/Drago Prvulovic
ہیلمٹ مکمل حفاظت نہیں کرتے
نیشنل فٹ بال لیگ پہلے تو کئی برسوں تک اس بات کی تردید کرتی رہی کہ کھلاڑی باکسر سنڈروم سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ اب آ کر چند قوانین تبدیل کیے گئے ہیں تاکہ دماغ کو کم سے کم جھٹکے لگیں۔ اس وقت سائنسدان ایسے مقناطیسی ہیلمٹ تیار کرنے میں مصروف ہیں، جو جھٹکے کی طاقت کو کمزور کرنے میں مدد دیں گے۔
تصویر: picture alliance/dpa
آئس ہاکی
اگر آپ اپنے دماغ کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو پھر آپ آئس ہاکی کھیلنے سے بھی پرہیز کریں۔ آئس ہاکی کے متعدد کھلاڑیوں میں بھی باکسر سنڈروم کی بیماری پائی گئی ہے۔ تصادم جان بوجھ کر ہو یا حادثے کے طور پر، حقیقت یہ ہے کہ مسلسل جھٹکوں سے دماغ میں خطرناک قسم کی پروٹینز کی تعداد اور مقدار میں اضافہ شروع ہو جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/The Canadian Press/Jason Franson
فٹ بال
یہ بات مضحکہ خیز لگتی ہے لیکن حقیقت یہی ہے۔ کئی فٹبال کھلاڑی بھی اسی مرض میں مبتلا ہیں اور اس کی وجہ مسلسل ہیڈ اسٹروک ہیں۔ فٹبال میں سر کو لگنے والے جھٹکے اتنے زیادہ خطرناک نہیں ہیں، جتنے کہ امریکی فٹبال یا پھر آئس ہاکی میں لگنے والے جھٹکے۔ لیکن بظاہر بےضرر نظر آنے والے جھٹکے بھی نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔
ماہرین اس نئے اسکینر کو بچوں اور معمر افراد کی دماغی نگہداشت کے شعبے میں ایک انقلابی آلے سے تعبیر کر رہے ہیں۔ محققین کے مطابق ’ٹرانسفورمیٹیو‘‘ تصویری نظام کے تحت اس آلے کی مدد سے مریضوں کے دماغی افعال کو دیکھا جا سکتا ہے، جب کہ اس عمل کے دوران کوئی مریض جسمانی طور پر بالکل آزاد ہو گا۔ ماہرین کے مطابق اسکینگ کے دوران کوئی مریض انگڑائی لینے، گردن ہلانے حتیٰ کہ پنگ پانگ کا کھیل کھیلنے جیسے افعال تک میں آزاد ہوں گے۔
لندن کے یونیورسٹی کالج کے پروفیسر اور اس پروجیکٹ سے وابستہ گاریتھ بارنیس کے مطابق، ’’یہ ایک نئی طرز کا برین اسکینر ہے، جس کی مدد سے اعصابی تصویری ماحول کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ اس سے قبل معالجین کی پہنچ اس انداز سے دماغ تک نہیں تھی، مثلاﹰ بچوں کو جسمانی طور پر آزاد چھوڑ کر ان کے دماغ کا تصویری معائنہ اس سے قبل اس طرح ممکن نہیں تھا۔‘‘
اس وقت دماغ کی اسکینگ کے لیے مقناطیسی انسیفالو گرافی (MEG) اسکینر استعمال کیے جاتے ہیں، جو دماغ کی مقناطیسی فیلڈ کا جائزہ لیتے ہیں اور انہیں انتہائی سرد (مفی 269 سینٹی گریڈ) درجہ حرارت یا مطلق صفر درجہ حرارت پر چلایا جاتے ہے اور اس درجہ حرارت کے حصول کے لیے بھاری کولنگ مشینوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
پڑھائی میں دل لگانے کے بہترین نسخے
دنیا بھر میں طالب علموں پر تعلیم کا دباؤ ہمیشہ سے رہا ہے لیکن کئی بار کتاب کھولنے کے باوجود ان کے لیے پڑھائی پر توجہ مرکز رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ دماغ کو بیدار اور چوکس رکھنے کے لیے یہ طریقے اپنائے جا سکتے ہیں۔
تصویر: Colourbox
کھڑے ہو جانا
کچھ دیر بیٹھنے کے بعد جسم سستی کا شکار ہونے لگتا ہے، جس کا اثر دماغ پر پڑتا ہے۔ امریکا کی ٹیکساس یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق لیکچر کے دوران وقفے وقفے کے ساتھ کھڑے ہونے والے طالب علم زیادہ توجہ کے ساتھ سنتے ہیں۔
تصویر: Imago/Jochen Tack
ذمے داری
اکثر طالب علم باقی سارے کام تو ذمے داری کے ساتھ کرتے ہیں لیکن تعلیم کے معاملے میں ایسا نہیں کرتے۔ باقی کاموں کی طرح ہی تعلیم کو بھی ایک ذمے داری سمجھ کر حاصل کریں۔ ایسا کرنے سے آپ کی استعداد میں بہتری آئے گی۔
تصویر: BlueOrange Studio/Fotolia
غذائیت سے بھری خوراک
محققین کے مطابق صحت مند دماغ کے لیے وٹامن اور معدنیات بہت ضروری ہیں۔ ساتھ ہی پانی پینا بھی بہت ضروری ہے۔ کئی ممالک میں سیب کو طالب علموں کے لیے بہت اچھا پھل سمجھا جاتا ہے۔
تصویر: Colourbox/6PA/MAXPPP
یہ ضرور کھائیں
اگر آپ اپنے دماغ کو بہترین رکھنا چاہتے ہیں تو اخروٹ، بادام، سبزیاں، ٹماٹر اور پھل ضرور کھائیں۔ مچھلی اور چائے بھی ذہن کو چاق و چوبند رکھنے کے لیے مفید سمجھے جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
فاسٹ فوڈ سے دوری
آج کل کی تیز رفتار زندگی میں زیادہ تر نوجوانوں کی مرغوب غذا فاسٹ فوڈ ہوتی ہے، جس کی اچھی خاصی مقدار کھانے کے بعد وہ کولڈ ڈرنک بھی ضرور پیتے ہیں۔ جن سے پیٹ تو بھر جاتا ہے لیکن دماغ اور جسم کے لیے ضروری غذائیت نہیں ملتی۔
تصویر: Fotolia/Silverego
ذرا آرام دیں
فیس بک یا واٹس اپ پر بہت زیادہ وقت خرچ کرنے کی بجائے موسیقی سننا، دوستوں کے ساتھ مل کر گپ شپ کرنا یا ٹہلنے چلے جانا زیادہ اچھی اور صحت بخش مصروفیات ہیں۔ اس سے دماغ کو آرام اور سکون ملتا ہے۔
تصویر: colourbox
ورزش
سائنسدانوں کے مطابق ورزش بھی دماغ کو ہلکا پھلکا کرنے میں مدد دیتی ہے۔ کہتے ہیں کہ دَس منٹ سے زیادہ جسمانی مشقت کرنے پر کئی ایسے ہارمون نکلتے ہیں جو فیصلہ سازی کے عمل میں مدد دیتے ہیں۔
تصویر: Colourbox
7 تصاویر1 | 7
اس عمل کے دوران قریب نصف ٹن وزنی مشین چلائی جاتی ہے، جب کہ ایسے میں مریض کو بالکل سیدھا لیٹنا پڑتا ہے اور اسے کسی بھی قسم کی حرکت سے منع کیا جاتا ہے، تاکہ دماغ کی درست اور واضح تصاویر مل سکیں، تاہم اس طریقہ کار کا بچوں یا پارکنسن اور رعشہ جیسی بیماریوں کے حامل افراد پر استعمال نہایت مشکل ہے۔
برطانیہ کی یونیورسٹی آف نوٹِنگم اور یونیورسٹی کالج لندن کے محقیقن کے ٹیموں کی متعارف کردہ اس نئے اسکینر میں کولنگ نظام کے لیے کوانٹم برین سینسر استعمال کیے گئے ہیں اور اس طرح اب کسی بھی مریض کے دماغی افعال کو باآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔