دمشق ایئرپورٹ پر اسرائیلی فضائی حملے میں چار افراد ہلاک
2 جنوری 2023
اسرائیلی فوج نے پیر کے روز دمشق بین الاقوامی ہوائی اڈے پر میزائل حملہ کیا جس میں دو شامی فوجیوں سمیت چار افراد ہلاک ہوگئے۔ ہوائی اڈے کو بند کردیا گیا ہے، سات ماہ کے عرصے میں اسے دوسری مرتبہ بند کیا گیا ہے۔
اشتہار
شامی فوج نے بتایا کہ اسرائیل نے دمشق انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر فضائی حملہ کیا جس میں کم از کم دو فوجی مارے گئے اور ہوائی اڈے کی تنصیبات کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی سانا (ایس اے این اے) نے ایک اعلیٰ فوجی افسر کے حوالے سے جاری بیان میں بتایا کہ دمشق بین الاقوامی ہوائی اڈے پر پیر کے روز مقامی وقت کے مطابق صبح دو بجے فضائی حملہ کیا گیا جس میں ہوائی اڈے اور اس کے اطراف کو نشانہ بنایا گیا۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ حملے کے نتیجے میں "دو فوجیوں کی موت ہوگئی جب کہ دو دیگر زخمی ہوگئے اور تنصیبات کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ ہوائی اڈہ فی الحال غیر فعال ہے۔"
برطانیہ سے سرگرم انسانی حقوق کی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ حملے میں مجموعی طور پر چار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
آبزرویٹری کے سربراہ رامی عبدالرحمان نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ"دو شامی فوجیوں سمیت چار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔" انہوں نے بتایا کہ حملے میں ہوائی اڈے اور اس کے قریب موجود اسلحے کے ڈپو کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے کوآرڈینیشن انسانی امور نے شامی جنگ کی تصویری دستاویز مکمل کی ہے۔ اس میں شامی فوٹرگرافروں کی شاہکار تصاویر شامل ہیں۔ چند ایک درج ذیل ہیں:۔
تصویر: Bassam Khabieh/OCHA
الرقعہ کے ملبے تلے دبی یادیں
اس تصویر میں ایک خاتون بچے کی گاڑی کے ساتھ الرقعہ کے ایک تباہ شدہ علاقے سے گزررہی ہیں۔ سن 2019 میں یہ تصویر عبُود حمام نے کھینچی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ الرقعہ شہر کی ہر گلی میں ان کی یادیں بکھری ہوئی ہیں لیکن اب اس شہر کی شکل ان کے لیے گہرے صدمے کا باعث ہے۔ حمام کے مطابق دکھ کی بات یہ ہے کہ شہر کا ماضی اور گزری زندگی کی سبھی یادیں تباہ و برباد کر دی گئیں۔ یہ سب کچھ انتہائی تکلیف دہ ہے۔
تصویر: Abood Hamam/OCHA
نہ ختم ہونے والا سوگ
سن 2020 میں ادلب میں دو بھائی ماں کے مرنے پر گلے لگ کر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے۔ فوٹو گرافر غیث السید سترہ برس کا تھا جب جنگ شروع ہوئی تھی۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کے شہر پر کیے گئے ایک فضائی حملے میں میزائل لگنے سے ان کے بھائی امر کی موت ہوئی۔ تب سے میزائل حملے کا ہر منظر اس کی یادیں تازہ کر دیتا ہے۔
تصویر: Ghaith Alsayed/OCHA
تباہی میں سب چھن گیا
سن 2020 میں ایک ماں اور اس کا بچہ تباہ شدہ اسکول میں کھڑے ہیں۔ یہ تصویر محمد زیاد نے کھینچی تھی۔ زیاد شام کی جنگ شروع ہونے کے زمانے میں ہائی اسکول کا طالب علم تھا اور فوٹوگرافر یا صحافی بننا اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ لیکن پچھلے چند برسوں میں اس کی تصاویر انسانی المیے کے شاہکار کی صورت میں کئی جریدوں میں چھپیں۔ زیاد کو اس سے بہت ہمت اور حوصلہ ملا ہے۔
تصویر: Mohannad Zayat/OCHA
بم دھماکوں سے بنے گھڑوں میں پانی
سن 2013 میں حلب شہر کا منظر۔ فوٹو گرافر مظفر سلمان ہیں۔ بم دھماکے سے تباہ شدہ اس پائپ سے ایک بچہ پانی پی رہا ہے۔ اس تصویر پر خاصی تنقید کی گئی کہ فوٹو گرافر کو تصویر بنانے کیبجائے بچے کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنا چاہیے تھا۔ فوٹو گرافر کا کہنا ہے کہ دیکھے بغیر حقیقت کا یقین اور حالات میں تبدیلی ممکن نہیں۔
تصویر: Muzaffar Salman/OCHA
الوداع اے غول!
مارچ سن 2018: ایک شخص اپنے بچے کو ایک سوٹ کیس میں ڈال کر گھسیٹتا ہوا بقیہ خاندان کے ساتھ غول سے فرار ہو رہا ہے۔ عمر صنادیکی اس کے فوٹوگرافر ہیں جنہوں نے اس امید پر یہ تصویر بنائی کہ شاید 50 سال بعد ان کی اپنی بیٹیاں اس انسانی المیے کی تصاویر دنیا کو دکھا سکیں۔
تصویر: Omar Sanadiki/OCHA
دُوما میں کافی کا ایک کپ
سن 2017 ایک عورت اور اس کا شوہر دوما کے نواح میں واقع اپنے مکان میں کافی پی رہے ہیں۔ دوما دارالحکومت دمشق کے نواح میں ہے۔ فوٹوگرافر سمیر الدومی کے مطابق تصویر خاتون ام محمد کی ہے، جو زخمی ہونے کے بعد ابھی ٹھیک ہو رہی تھیں کہ ان کے شوہر فضائی حملے میں چلنے پھرے سے معذور ہو گئے۔ ام محمد کی اپنے شوہر کے لیے محبت قابل دید ہے۔
تصویر: Sameer Al-Doumy/OCHA/AFP
بیٹے کی قبر پر سوگوار ماں
یہ تصویر محمد ابا زید نے کھینچی۔ 2017ء میں عید الفطر کے پہلے دن ایک ماں اپنے بیٹے کو چوم رہی ہے اور گریا زاری کر رہی۔ فوٹو گرافر کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رک سکا۔ وہ اپنے آنسو پونچھتا جاتا اور درد وغم کے انتہائی لمحات کو عکس بند کرتا جا رہا تھا۔ یہ تصویر درعا کی ایک قبرستان میں بنائی گئی تھی۔
تصویر: Mohamad Abazeed/OCHA
مارٹر حملے میں ٹانگ کھو بیٹھنے والی بچی
دسمبر سن 2013 : پانچ سالہ بچی ’آیا‘ رات کے کھانے پر اپنے والد کا انتظار کر رہی ہے۔ یہ تصویر اُس لمحے کارول الفرح نے کھینچی۔ بچی اسکول سے لوٹ رہی تھی کہ رستے میں مارٹر گولے کی زد میں آ گئی۔ اس کا کہنا ہے کہ ایک دھماکا ہوا اور اس کی ٹانگ جوتے سمیت اڑ گئی۔
تصویر: Carole Alfarah/OCHA
ایک انوکھا عارضی تربیتی کورس
یہ تصویر سن 2020 میں انس الخربوتی نے کھینچی۔ حلب کے علاقے کفر نوران میں تباہ شدہ عمارت میں ’پارکور ایتھلیٹس‘ کی ٹریننگ ایک تعمیری عمل۔ فوٹو گرافر کوملبے میں زندگی آگے بڑھانے کا جذبہ نظر آیا۔
تصویر: Anas Alkharboutli/OCHA/picture alliance/dpa
ادلِب میں ایک نئی زندگی کا امکان
علی حاج سلیمان نے یہ تصویر سن 2020 میں ادلب شہر کی جنوبی بستی بلیُون میں کھینچی۔ ’ غم اور خوشی کا ملا جلا جذبہ‘۔ ایک خاندان جنگ بندی معاہدے کے بعد واپس اپنے مکان پہنچا ہے۔ سلیمان کو خوشی ہوئی کہ یہ خاندان اپنے گھر لوٹا تاہم اسے دکھ ہے کہ وہ خود اپنے گاؤں اور گھر نہیں جا سکتا۔
تصویر: Ali Haj Suleiman/OCHA
10 تصاویر1 | 10
ہوائی اڈہ سات ماہ میں دوسری مرتبہ بند
ایک برس سے بھی کم عرصے میں یہ دوسری مرتبہ ہے جب دمشق بین الاقوامی ہوائی اڈے کو بند کرنا پڑا ہے۔
گزشتہ برس 10جون کو بھی اسرائیلی حملے کے بعد دمشق کا ہوائی اڈہ غیر فعال ہوگیا تھا، جسے جزوی تعمیر نو کرکے دو ہفتے کے بعد دوبارہ کھولا گیا تھا۔
اسرائیل دیگر ہوائی اڈوں کو بھی نشانہ بناچکا ہے۔ اس نے ستمبر میں شام کے سب سے بڑے حلب کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر حملہ کیا تھا جس کی وجہ سے یہ کئی دنو ں تک غیر فعال رہا تھا۔
اسرائیل حالیہ برسوں میں شام میں حکومت کے کنٹرول والے علاقوں میں سینکڑوں فضائی حملے کرچکا ہے تاہم وہ نہ تو ان کے بارے میں کوئی بات کرتا ہے اور نہ ہی ان کا اعتراف۔ اسرائیل نے تاہم اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس نے ایرانی حمایت یافتہ مسلح گروپوں بشمول لبنان کے حزب اللہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔
شام میں گذشتہ 11برس سے جاری خانہ جنگی کے دوران ایران کی حمایت یافتہ عسکریت پسندوں کی شرکت سے جنگ کا توازن صدر بشارالاسد کے حق میں ہو چکا ہے جبکہ اسرائیل اپنی شمالی سرحد پر ایران کی موجودگی کو اپنی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتا ہے۔ بشارالاسد نے یہ کبھی اعتراف نہیں کیا ہے کہ ایرانی فوج ان کی مدد کر رہی ہے۔
پیر کے روز دمشق ہوائی اڈے پر ہونے والا حملہ ایسے وقت ہوا ہے جب اسرائیلی فوج کے سربراہ میجر جنرل اودید باسیوک نے چند روز قبل ہی سن 2023 کے لیے اپنی فوج کی آپریشنل سرگرمیوں کا خاکہ پیش کیا تھا۔