دنیا بھر میں جمہوریت ‘کمزور اور کم تر' ہو گئی، رپورٹ
29 اپریل 2020
دنیا بھر میں غیر تسلی بخش اور کم جمہوری حالات میں زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اس نئے مطالعاتی جائزے کے مطابق عدم مساوات اور جبرعالمی اقتصادی منڈی کو بھی کمزور کر رہے ہیں۔
اشتہار
جرمنی کی برٹیلسمن فاؤنڈیشن کی نئی مطالعاتی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سیاسی آزادی اور قانون کی حکمرانی کو پامال کیا جا رہا ہے۔ اس فاؤنڈیشن کے ٹرانسفارمیشن انڈیکس کےمطابق دنیا بھر میں جمہوریت اور مطلق العنان حکومتوں کے جابرانہ رویوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
جرمنی کی فاؤنڈیشن نے بدھ کو کہا ہے کہ عالمی سطح پر جمہوریت میں کمی کی بنیادی وجوہات طاقت کا غلط استعمال اور اقرباء پروری ہیں۔ اس کے نتیجے میں معاشرتی اور معاشی عدم مساوات وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس مطالعاتی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ حالیہ کورونا وائرس کے بحران کی وجہ سے بھی دنیابھر کی جمہوری حکومتوں کو خطرہ ہے۔
سروے کے آغاز سے کم ترین ریٹنگ
جرمن فاؤنڈیشن نے سن دو ہزار چار میں گلوبل ٹرانفارمیشن انڈیکس (بی ٹی آئی) کا آغاز کیا تھا تا کہ ترقی پذیر اور تبدیلی کے دور سے
گزرنے والے ممالک میں ہر دو سال بعد سیاسی اور معاشی ترقی کا مطالعہ کیا جا سکے۔
مسلسل چھٹی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ دنیا بھر میں جمہوریت، مارکیٹاکانومی اور گورننس کا معیارکم ہوا ہے اور اس مرتبہ یہ اپنی نچلی ترین سطح پر ہے۔ اس جرمن فاؤنڈیشن نے اس رپورٹ کی تیاری کے لیے ایک سو سینتیس ممالک میں چوہتر جمہوری اورتریسٹھ مطلق العنان حکومتوں کے رویوں کا جائزہ لیا ہے۔
یورپی اقدار کیا ہيں؟
آزادی، برابری، جمہوریت: یورپی اقدار اکثر سننے میں بہت مقدس لگتی ہیں لیکن کیا واقعی ایسا ہی ہے؟ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کہ اگر یورپ میں ایک سو افراد رہائش پذیر ہوں، تو مختلف معاملات پر ان کی رائے کيا ہو سکتی ہے۔
کيا مرد، خواتین کی نسبت بہتر سیاسی رہنما ہوتے ہيں؟
یورپی پارلیمان کے انتخابات سے قبل یورپی اقدار کے بارے میں بحث ايک مرتبہ پھر چھڑ گئی ہے۔ لیکن در حقیقت یورپی اقدار ہیں کیا؟ ایک سروے کے مطابق ہر 100 میں سے 29 یورپی شہریوں کی رائے میں مرد، خواتین کی نسبت بہتر سیاسی رہنما ثابت ہوتے ہیں۔
سیاسی تشدد اور رشوت ناقابل قبول
یورپی شہریوں کی اکثریت سیاسی تشدد کے خلاف ہے اور رشوت کی بھی شديد مخالفت کرتی ہے۔ ’یورپین ویلیوز اسٹڈی‘ میں آسٹریا، بیلاروس، بلغاریہ، کروشیا، چیک ری پبلک، جرمنی، آئس لینڈ، پولینڈ، روس، سلوواکیہ، سلوینیا، ہسپانیہ، سوئٹزرلینڈ اور ہالينڈ کے شہریوں کے خیالات جانے گئے۔
ویڈیو کے ذریعے نگرانی
لگ بھگ نصف یورپی شہریوں کا کہنا ہے کہ عوامی مقامات پر کیمروں کے ذریعے نگرانی کی جانی چاہیے۔ لیکن نصف شہریوں کی رائے میں ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
مذہب پر بھی رائے منقسم
ہر ایک سو افراد میں سے صرف 38 جنت پر یقین رکھتے ہیں، جن ميں سے تينتيس خود کو مذہبی تصور کرتے ہيں جبکہ بقيہ نہيں۔ ہر ایک سو میں سے صرف 29 افراد کو دوزخ کے ہونے پر یقین ہے۔
ہم جنس والدین
آئس لینڈ میں ہر ایک سو میں سے 88 افراد کی رائے ميں ہم جنس پرست جوڑوں کو بچے گود لينے اور ان کی پرورش کرنے کی اجازت ہونی چاہيے۔ روس میں صرف دس فیصد اس رجحان کی حمایت کرتے ہیں۔ تحقیق نے یہ ثابت کر ديا ہے کہ ہم جنس پرست والدین بھی بچوں کی تربیت عام والدین کی طرح ہی کر سکتے ہيں۔
پچیس فیصد مسلمانوں کو بطور پڑوسی نہیں چاہتے
اس سروے کے مطابق ہر ایک سو میں سے پچیس شہریوں کا کہنا تھا کہ وہ تارکین وطن اور مسلمانوں کو اپنے پڑوسی کے طور پر نہیں چاہتے۔ ایک سو میں سے 12 نے کہا کہ وہ یہودی کے ساتھ بطور پڑوسی رہنا پسند نہیں کریں گے۔ صرف پانچ فیصد افراد ایسے تھے جو مسیحیوں کو بطور پڑوسی پسند نہیں کرتے۔
یورپی اقدار
یہ تمام اعداد و شمار ’یورپیئن ویلیوز اسڈی‘ سے حاصل کیے گئے ہيں۔ اس سروے میں ہر دس سال بعد یورپی شہریوں سے سینکڑوں سوالات پوچھے جاتے ہیں تاکہ تنوع، سیاست اور دیگر معاملات پر ان کی رائے جانی جا سکے۔ اس رپورٹ ميں شامل تحقيق کا آغاز 2017ء میں ہوا تھا۔
7 تصاویر1 | 7
اس معالعاتی رپورٹ کے مصنفین کے مطابق “مستحکم جمہوریتوں میں قانون کی حکمرانی اورشہری آزادیوں کو ختم کرنا حیران کن ہے”۔ اس حوالے سے بھارت میں بڑھتی ہوئی ہندو قوم پرستی، برازیل میں دائیں بازو کی عوامیت پسندی اور یورپی یونین میں ہنگری حکومت کی “آمرانہ پالیسیوں” کی مثال دی گئی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق قوم پرستی اور اقرباء پروری کوئی نئیچیزیں نہیں ہیں لیکن اب دنیا بھر میں انہیں بلا احتجاج قبول کیا جا رہا ہے۔ اس جرمن فاؤنڈیشن کے ایگزیکٹیو بورڈ کی رکن بریگیٹےموہن کا کہنا تھا کہ پولینڈ اور ہنگری یورپ کے وسط میں واقع ہیں لیکن جب قانون کی حکمرانیاور جمہوریت کے معیار کی بات آتی ہے تو یہ “خوفناک گراوٹ” کا شکار ہیں۔
جمہوریت اور آزادی کے لیے دنیا بھر میں ہونے والے احتجاج
2019ء کے دوران دنیا کے مختلف حصوں میں لوگ بدعنوانی، غربت، معاشرتی عدم مساوات، نسلی امتیاز اور تحفظ ماحول کے لیے سڑکوں پر نکلے۔ تبدیلی لانے کی شدید خواہش دنیا بھر میں لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑ رہی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Casarez
ہیٹی: ’ہمارے ساتھ انسانوں جیسا سلوک نہیں کیا جاتا‘
ہیٹی میں گزشتہ کئی مہینوں سے احتجاج کے دوران مظاہرین صدر جوونیل موئیز سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہیٹی کی حکومت کو بدعنوانی کے متعدد الزامات کا سامنا ہے۔ عام شہریوں کو ہسپتالوں اور تعلیم و تربیت تک رسائی نہ ہونے کے ساتھ ساتھ کم خوراکی جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ سیاسی اشرافیہ کے خلاف عوامی غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ہیٹی مغربی کرہ کا غریب ترین ملک ہے۔
تصویر: Reuters/V. Baeriswyl
چلی: ناانصافی کے خلاف مزید برداشت نہیں‘
اکتوبر کے آخر سے چلی میں مظاہرے جاری ہیں۔ مظاہرین اصلاحات اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ ان مظاہروں کے دوران اکثر ہلاکتوں اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Silva
بھارت: ’قانون، جو ملک کو تقسیم کر سکتا ہے‘
پھل فروش محمد انس قریشی بھارت میں شہریت کے متنازعہ ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج میں شریک ہیں۔ یہ قانون تین ممالک سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی مہاجرین کی بھارتی شہریت کے حصول کو آسان بناتا ہے۔ تاہم شرط یہ ہے کہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے یہ مہاجرین مسلمان نہ ہوں۔ ان مظاہروں میں اب تک بیس سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
عراق: آخری دم تک ساتھ دینے کا وعدہ‘
عراق میں اکتوبر سے بدعنوانی اور ایران نواز حکومت کے خلاف جاری مظاہروں میں چھیاسٹھ سالہ ام مہدی بھی شریک ہیں۔ اب تک ان مظاہروں میں ساڑھے چار سو سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ وزیر اعظم عبدل عادل مہدی کا استعفی بھی اس احتجاج کی شدت کو کم نہیں کر سکا۔ مظاہرین سیاسی نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
ایران: ’اقتصادی صورتحال انتہائی خراب‘
نومبر میں دو ہفتوں تک جاری رہنے والے مظاہروں کے دوران ایران میں کم از کم پندرہ سو افراد کے ہلاک ہونے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ احتجاج میں شریک یہ شخص اپنی شناخت مخفی رکھتے ہوئے گولیوں کے خول ہاتھ میں لیے ہوئے ہے۔ یہ مظاہرے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف شروع ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/SalamPix
ہانگ کانگ : ’حکومت ہمارے مطالبے تسلیم کرے‘
ہانگ کانگ میں احتجاج میں شریک یہ دونوں خود کو لبرٹی گرل اور لٹل برادر کہتے ہیں۔ چین کا خصوصی انتظامی علاقہ ہانگ کانگ آج کل شدید ترین سیاسی بحران کا شکار ہے۔ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف یہ مظاہرےجون سے جاری ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
فرانس: ’صرف امیروں کا تحفظ‘
دیدیئر بیلاک فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کی تجویز کردہ اصلاحات کے خلاف مظاہروں میں شریک ہیں۔ اس احتجاج اور ہڑتال کی وجہ سے ٹرینوں اور میٹرو کی آمد و رفت خاص طور پر متاثر ہوئی ہے۔ ابھی تک اس بحران کا کوئی حل دکھائی نہیں دے رہا۔ گزشتہ برس موسم سرما میں بھی ’زرد جیکٹ‘ نامی احتجاج کے دوران ماکروں کے اصلاحاتی ایجنڈے پر شدید تنقید کی جا چکی ہے۔
تصویر: Reuters/B. Tessier
بولیویا: ’حکومت ہمارے وطن کو فروخت کر رہی ہے‘
ریویرا زمپانو نے مستعفی ہونے والے ملکی صدر ایوو مورالیس کے دیگرحامیوں کے ساتھ مل کر سڑک کی ناکہ بندی کی تھی۔ مورالیس کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال اور دہشت گردی کے الزامات عائد کیے جانے کے خلاف کئی ہفتوں تک مظاہرے کیے گئے تھے۔ تاہم ان مظاہرین کے برعکس زمپانو کا موقف ہے کہ بولیویا کی عبوری حکومت ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔
تصویر: Reuters/M. Bello
کولمبیا:’ انقلاب کے بعد ہی تبدیلی‘
اندریس فیلیپے نے دسمبر کے اوائل میں ملکی سربراہ مملکت ایوان دوکے کے خلاف ہونے میں مظاہروں میں شرکت کی۔ مظاہرین سماجی شعبے میں منصفانہ پالیسیوں، تعلیم و تربیت کے لیے مزید رقم مختص کرنے اور صحت کے بہتر نظام کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے لیے سرگرم افراد کے بہتر تحفظ کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان کا ایک مطالبہ سابقہ فارک باغیوں کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے پر مکمل طور پر عمل درآمد بھی تھا۔
تصویر: Reuters/L. Gonzalez
لبنان:’ گزشتہ تیس برسوں سے یہ ہمیں لوٹ رہے ہیں‘
اکتوبر سے لبنان میں گاہے بگاہے مظاہرے دیکھے گئے ہیں۔ یہ لوگ بدعنوانی اور غلط اقتصادی پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوئے۔ وزیر اعظم سعد الحریری کے مستعفی ہونے کے بعد بھی حبا غوسن جیسے شہری نئے نامزد کردہ حکومتی سربراہ حسن دیاب کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ حسن دیاب کو شیعہ تنظیم حزب اللہ کی حمایت حاصل ہے۔