دنیا اگلی عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں، جائزہ رپورٹ
4 نومبر 2023
حالیہ عالمی جائزے پر مبنی ایک رپورٹ میں تجویز پیش کی گئی ہے کہ وبائی امراض کی روک تھام اور متعلقہ تیاریوں کے لیے فوری طور پر دس ارب مالیت کا ایک فنڈ قائم کیا جائے۔
اشتہار
ایک حالیہ عالمی جائزے میں خبردار کیا گیا ہے کہ دنیا کووڈ انیس کے بعد اب بھی صحت کے کسی نئے ممکنہ بحران یا وبا سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
عالمی ادارہ صحت اور عالمی بینک کی جانب سے 2018 ء میں قائم کیے جانے والے 'گلوبل پریپیئرڈنیس مانیٹرنگ بورڈ‘ یا جی پی ایم بی کا اپنی رپورٹ میں کہنا ہے کہ کووڈ انیس کی عالمی وبا کے تناظر میں وبائی امراض کے حوالے سے کچھ کام کیا گیا ہے، لیکن چند ممالک کی جانب سے اس طرح کے بحرانوں سے فوری طور پر نمٹنے کے لیے کی گئی تیاریوں میں ابھی بھی کمی دیکھی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ کئی اور دیگر ممالک میں اس حوالے سے کی گئی پیش رفت بھی ناکافی ہے۔
امراض کی نگرانی کا نظام
وبائی امراض کی روک تھام اور ان سے نمٹنے کے لیے جی پی ایم بی نے تجویز دی ہے کہ مختلف امراض کی نگرانی کا نظام بہتر بنانے کی ضرورت ہے تا کہ بیماریوں کی تشخیص ابتدائی مراحل ہی میں کی جا سکے۔ اسی طرح ڈیٹا اکھٹا کرنے اور تجزیاتی صلاحیت کو بہتر بنانے پر بھی زور دیا گیا ہے۔
حالیہ جائزے پر مبنی اپنی رپورٹ میں جی پی ایم بی نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ غریب ممالک کو صحت کے حوالے سے وسائل فراہم کرنے کے لیے مالی مدد اور ان کے قرضوں کی ادائیگی موخر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس رپورٹ میں تجویز پیش کی ہے کہ وبائی امراض کی روک تھام اور متعلقہ تیاریوں کے لیے فوری طور پر دس ارب مالیت کا ایک عالمی فنڈ بھی قائم کیا جائے۔
سول سوسائٹی کی شمولیت
جی پی ایم بی کا یہ بھی کہنا ہے کہ نئی ادویات پر تحقیق اور ان کی تیاری صرف چند ممالک تک ہی محدود نہیں رہنی چاہیے، جیسا کہ کووڈ انیس کی وبا کے دوران دیکھا گیا تھا۔ اس رپورٹ میں وبائی امراض کے حوالے سے کی گئی تیاریوں میں سول سوسائٹی کی شمولیت بڑھانے پر بھی زور دیا گیا ہے۔
اس بارے میں جی پی ایم بی کی شریک سربراہ اور کروشیا کی سابقہ صدر کولنڈا گریبر کا کہنا ہے کہ مختلف ممالک میں حکام اور عوام کے درمیان عدم اعتماد کے باعث وبائی امراض سے نمٹنے کی تیاریوں میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔
انہوں نے زور دیا ہے کہ لیڈران کو ان تفرقات سے آگے بڑھ کر ایک نئی راہ اپنانی چاہیے، جس کی بنیاد اس بات پر رکھی گئی ہو’’ہمارے محفوظ مستقبل کا انحصار بامعنی اصلاحات اور طبی ایمرجنسی کے لیے تیار رہنے کے سیاسی عزم پر ہے۔‘‘
م ا، ش ر (ڈی پی اے)
کووڈ کے دوران والدین کو کھو دینے والے بچے
امریکا میں کووڈ انیس کی وبا سے ہونے والی ہلاکتیں دس لاکھ سے بڑھ گئی ہیں۔ اس وبا کے دوران ہزاروں بچے اپنے والدین یا کم از کم ماں باپ میں سے کسی ایک سے محروم ہو گئے ہیں۔
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
’افسوس ناک ترین واقعہ‘
چودہ سالہ جولیئس گارزا اپنے والد کے دکھ کو کمپیوٹر گیمز کھیل کر بھلانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے والد دسمبر سن 2020 میں کووڈ انیس کی وجہ سے دم توڑ گئے تھے۔ وہ اور اس کا بھائی اس دن کو یاد کرتے ہیں جب سن 2015 میں ان دونوں کو مارگریٹ اور ڈیوڈ نے اپنی کفالت میں لیا تھا۔ جولیئس کے مطابق ڈیوڈ کی موت اس کی زندگی کا انتہائی دکھ بھرا وقت تھا اور شاید وہ اس کو کبھی بھی بھول نہیں سکے گی۔
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
والد کی یاد میں
جولیئس گارزا کی عمر چودہ اور ان کا بھائی عیدان گارزا کی عمر بارہ سال ہے۔ وہ اپنے والد کو ہر مہینے کی تیس تاریخ کو خاص طور پر اپنی دعا میں یاد کرتے ہیں۔ مارگریٹ کے شوہر مرحوم ڈیوڈ کی سالگرہ تیس اپریل کو ہوتی ہے اور وہ کووڈ انیس کی وجہ سے تیس دسمبر سن 2020 کو موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
صورت حال سمجھنے کی کوشش
مارگریٹ گارزا اور ان کا بیٹا جولیئس تصویر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ڈیوڈ اور ان کے بھائی کے اصل والد کو سوتیلی بیٹی کا جنسی استحصال کرنے کے جرم میں جیل بھیج دیا گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد ڈیوڈ ان کے کفیل بن گئے تھے۔ اب جولیئس اس کوشش میں ہے کہ وہ ڈیوڈ کی موت کو سمجھ پائے۔
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
ناقابلِ تلافی نقصان
جوسٹس میکگوون تیرہ سال کی ہیں اور وہ بھی اپنے والد کو کووڈ انیس کی وبا میں کھو چکی ہیں۔ جوسٹس کے والد مئی سن 2020 میں بیماری سے سنبھل نہیں سکے تھے۔ وہ اپنے والد کی سالگرہ کے دن سیڑھیوں میں بیٹھ کر انہیں یاد کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکا میں ایک ملین افراد ہلاک ہوئے یعنی کھانے کی میز پر ایک ملین خالی کرسیاں، یہ ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
’وہ وہی کرتی ہے جو والد کیا کرتے تھے‘
جوسٹس کی والدہ ڈاکٹر سینڈرا میکگووں واٹس کا کہنا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کے معمولات کو سنبھالے ہوئے ہیں لیکن وہ اپنے والد کے انداز کو اپنانے کی کوشش کرتی ہیں۔ گزشتہ برس گھر میں اُگی جھاڑیوں کو اس نے باپ کا ٹرمر اٹھا کر کاٹا تھا۔
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
ایک مشترکہ روایت
جوسٹس میکگوون گھر میں اوون میں سے بسکٹوں کو باہر نکال رہی ہے، ایسا وہ اپنے مرحوم باپ کے سامنے کیا کرتی تھی۔ زندگی کئی بچوں کے لیے تبدیل ہو کر رہ گئی ہے لیکن وہ جذباتی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی کوشش میں ہیں۔
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
ہزاروں بچوں کے والدین میں سے ایک اب زندہ نہیں
ابھی تک ان امریکی بچوں کی فلاح و بہبود کسی حکومتی پروگرام میں شامل نہیں، جن کے والدین میں سے ایک وبا کے دوران ہلاک ہو چکے ہیں۔ محققین کے مطابق امریکا میں دو لاکھ تیرہ ہزار سے زائد ایسے بچے ہیں جن کے والدین میں سے ایک کووڈ انیس کی وجہ سے دنیا سے چلے گئے ہیں
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
بادلوں کو چھونے جیسا
عیدان گارزا اپنے باپ کی پسندیدہ کرسی پر بیٹھ کر ان کو یاد کرتے ہوئے کہنے لگا کہ ڈیوڈ ایک سیدھے اصولوں والا انسان تھا۔ عیدان کے مطابق ڈیوڈ ایک پرجوش اور نرم دل انسان تھے اور جب بھی وہ ان کے گلے لگتا تھا تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ بادلوں کو چھو رہا ہے۔
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
’ہمارا حالات دوسروں کی طرح نہیں ہیں‘
عیدان، جولیئس اور مارگریٹ ڈیوڈ کی تصویر کی تصویر کے سامنے اکھٹے ہیں۔ یہاں وہ برتن بھی رکھا ہوا ہے، جس میں ڈیوڈ کی راکھ ہے۔ مارگریٹ اپنے شوہر کی موت کے بعد اپنے بچوں کی نفسیاتی کاؤنسلنگ بھی کروا چکی ہے۔ عیدان اور جولیئس کا کہنا ہے کہ ان کا نارمل دوسرے خاندانوں جیسا نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ اپنا ایک عزیز اس وبا میں کھو چکے ہیں۔