جہادی گروپ داعش دنیا بھر کے مسلمانوں کو دعوت دے رہا ہے کہ اگر وہ شام یا عراق نہیں پہنچ سکتے تو افغانستان ہجرت کر جائیں۔ یہ دعوت ایک پروپیگنڈا فلم کے ذریعے دی گئی ہے۔
اشتہار
افغانستان میں خراسان صوبے میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی شاخ کی جانب سے چار مارچ کو ریلیز کی جانے والی یہ پروپیگنڈا فلم پچیس منٹ دورانیے پر مشتمل ہے۔ ’سائٹ انٹیلیجنس گروپ‘ کے مطابق اس فلم میں افغانستان کے شمال اور مشرق میں اس جہادی گروپ کے مضبوط ٹھکانوں کو پروموٹ کیا گیا ہے۔
ویڈیو میں ایک جنگجو کو یہ کہتے ہوئے دکھایا گیا ہے،’’دنیا کے ہر کونے میں رہنے والے مسلمانو! خراسان کی طرف مہاجرت اختیار کر لو، اگر تم شام یا عراق نہیں جا سکتے تو افغانستان آ جاؤ۔‘‘
خراسان سے مراد ایک تاریخی علاقہ ہے جس میں آج کے افغانستان، پاکستان اور پڑوسی ممالک کے کچھ حصے شامل تھے۔ یہ ویڈیو ایسے خدشات کے درمیان سامنے آئی ہے، جب اطلاعات کے مطابق شام اور عراق سے پسپا ہونے والے جہادی جنگجو افغانستان کی راہ لے رہے ہیں۔
حال ہی میں افغان حکام نے بتایا تھا کہ انہوں نے صوبہ ہلمند سے طالبان کے ساتھ ایک جرمن شہری کو بھی گرفتار کیا تھا۔ سولہ سالہ جنگ میں طالبان کے ساتھ کام کرنے والا اب تک کا یہ واحد یورپی باشندہ تھا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بھی حال ہی میں رپورٹ کیا تھا کہ شام سے آنے والے الجزائر اور فرانس سے تعلق رکھنے والے کچھ جنگجوؤں نے افغانستان کے شمالی صوبے جوزجان میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔
داعش کی جانب سے دنیا بھر میں مسلمانوں کو افغانستان آنے کی دعوت پر مبنی یہ ویڈیو عربی میں ہے تاہم بعض جنگجو پشتو، فارسی اور ازبک زبانوں میں بھی یہ پیغام دیتے نظر آتے ہیں۔
ویڈیو کا آغاز امریکی صدر ڈونلد ٹرمپ کے اُس بیان کی تضحیک کے ساتھ شروع ہوتا ہے جس میں انہوں نے افغانستان میں اس گروپ کی تباہی کا عہد کیا ہے۔ اس کے بعد ویڈیو میں قیدیوں کی سزاؤں اور کمسن جنگجوؤں کی تربیت کے مناظر دکھائے گئے ہیں۔
’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش سن 2014 میں افغانستان میں اس وقت سامنے آئی تھی جب نیٹو نے اپنے دستے افغانستان سے نکال لیے تھے اور سکیورٹی کی ذمہ داریاں افغان فورسز کو سونپ دی تھیں۔
ماضی کا جدید افغانستان
طالبان کے دور اقتدار میں افغانستان میں خواتین کا گھروں سے باہر نکلتے واقت برقع پہننا لازمی تھا۔ لیکن ایک ایسا وقت بھی تھا جب افغان خواتین کھلے عام مغربی لباس پہننا پسند کرتی تھیں جیسا کہ ان تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
خواتین ڈاکٹرز
یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔ اس میں کابل یونیورسٹی کی میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وقت خواتین افغان معاشرے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ خواتین کو تعلیمی سہولیات میسر تھیں اور وہ گھروں سے باہر نکل کر کام کر سکتی تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
کابل کی سٹرکوں پر فیشن
اس تصویر میں کابل ریڈیو کی عمارت کے باہر دو خواتین کو مغربی لباس پہنے دیکھا جا سکتا ہے۔ بنیاد پرست طالبان کی قیادت کے دوران خواتین برقعے کے بغیر گھروں سے باہر نہیں دیکھی جا سکتی تھیں۔ یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مساوی حقوق سب کے لیے
ستر کی دہائی کے دوران کابل کی پولی ٹیکنک یونیورسٹی میں طالبات کو دیکھے جانا ایک عام سی بات تھی۔ اب لگ بھگ 40 برس بعد تنازعات کے شکار اس ملک میں خواتین کے لیے تعلیم کا حصول مشکل ہے۔ افغانستان کے سن 2003 کے آئین کے مطابق لڑکے اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے برابر حقوق حاصل ہیں۔
تصویر: Getty Images/Hulton Archive/Zh. Angelov
کمپیوٹر کی تعلیم
اس تصویر میں ایک سوویت استاد کابل کے پولی ٹیکنک ادارے میں افغان طلبہ کو پڑھاتی نظر آرہی ہیں۔ سن 1979 سے 1989ء تک جب افغانستان پر سوویت یونین کا قبضہ تھا، کئی سویت اساتذہ افغانستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھاتے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP
طلبا اور طالبات
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں کابل میں مرد اور خواتین طلبہ کو ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ سن 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے بعد افغانستان میں دس سالہ طویل جنگ کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں سن 1989 میں سوویت یونین نے افغانستان سے انخلاء کر لیا۔ ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال رہی جس کے نتیجے میں سن 1996 میں طالبان کو اس ملک کی قیادت مل گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP
اسکول سب کے لیے
اس تصویر میں افغانستان میں سوویت تسلط کے دور میں افغان لڑکیوں کو ایک سیکنڈری اسکول میں دیکھا جا سکتا ہے۔ طالبان دور حکومت میں لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP
وہ وقت نہ رہا
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں ایک خاتون دوپٹہ اوڑھے بغیر اپنے بچوں کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہیں۔ طالبان کے دور کا اختتام تو ہو چکا ہے لیکن افغان معاشرے میں آج بھی خواتین اس پدارانہ معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔.