دنیا بھر میں بارہ ملین بچیوں کی کمسنی میں شادیاں، یونیسف
اے ایف پی
6 مارچ 2018
بچوں کی بہبود کے لیے سرگرم عالمی تنظیم یونیسف کے نئے اعداد و شمار کی رُو سے دنیا بھر میں سالانہ بنیادوں پر اٹھارہ سال سے کم عمر بارہ ملین بچیوں کی شادیاں ریکارڈ کی گئی ہیں۔ یہ تازہ رپورٹ آج بروز منگل جاری کی گئی ہے۔
اشتہار
عالمی سطح پر بچیوں کی کم عمری میں شادی سے متعلق یہ نیا ڈیٹا ظاہر کرتا ہے کہ گزشتہ ایک عشرے کے مقابلے میں ان شادیوں کی شرح میں پندرہ فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ تازہ اعدادوشمار کے مطابق ہر چار میں سے ایک بچی کی کم سنی میں شادی کر دی جاتی ہے جبکہ پہلے یہ شرح ہر پانچ میں سے ایک تھی۔
عالمی ادارہ برائے اطفال کا تاہم یہ بھی کہنا ہے کہ اگر بلوغت کی عمر سے پہلے بچیوں کی شادی کی یہ شرح برقرار رہی تو سن 2030 تک ایک سو پچاس ملین سے زائد لڑکیوں کو اٹھارہ سال کی عمر سے قبل ہی بیاہ دیا جائے گا۔
یونیسف کی پرنسپل جینڈر ایڈوائزر انجو ملہوترا نے اپنے ایک بیان میں کہا،’’جب ایک بچی کو جبری شادی کے لیےمجبور کیا جاتا ہے تو اس کے نتائج اسے عمر بھر بھگتنے پڑتے ہیں۔ اس کے لیے اسکول جانے اور تعلیم مکمل کرنے کے مواقع کم تر ہو جاتے ہیں اور اپنے شوہر کی طرف سے زیادتی اور دوران حمل پیچیدگیوں کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔‘‘
جنوبی ایشیائی ممالک میں پچپنے کی شادیوں میں گزشتہ دس برس میں پچاس فیصد سے تیس فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔
سب صحارن افریقہ میں بھی صورت حال بہتر ہوئی ہے۔ اس خطے میں جہاں ایک دہائی پہلے یہ شرح تینتالیس فیصد تھی وہ اب گھٹ کر اڑتیس فیصد رہ گئی ہے۔
یونیسف کے ڈیٹا کے مطابق آج 650 ملین خواتین ایسی ہیں جن کی شادی سنِ بلوغت سے قبل کر دی گئی تھی۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی اہداف میں سے ایک سن 2030 تک عالمی سطح پر کمسنی کی شادیوں کا خاتمہ بھی ہے۔
بھارت کے امراء میں بھی کم عمری کی شادیوں کا رواج
بھارت میں ہر سال لاکھوں لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کر دی جاتی ہے۔ غیر قانونی ہونے کے باوجود لڑکیوں کی نصف آبادی کو بچپنے میں ہی شادی کے بندھن میں باندھ دیا جاتا ہے۔
تصویر: AP
برا تصور نہیں کیا جاتا
سماجی مبصرین کی رائے میں بھارتی معاشرے میں کم عمری کی شادی کو برا تصور نہیں کیا جاتا اور قانونی طور پر جرم کے زمرے میں آنے والے اس فعل کو کم ہی رپورٹ کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/S. Andrade
حکومتی پالیسی ناکام
غیر سرکاری تنظیم ’ایکشن ایڈ انڈیا‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق کم عمری کی شادیوں سے متعلق حکومت کی پالیسی ملک میں چھوٹی عمر میں شادیوں کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ قانونی اقدامات بھارتی معاشرے میں ایسی ثقاتی روایات کے اثرات کو کم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے جو کم عمری کی شادیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
تصویر: AP
لڑکوں کی تعداد لڑکیوں سے کم
تھامسن روئٹرز فاؤندیشن کی رپورٹ کے مطابق لڑکوں کی شادی بھی چھوٹی عمر میں کرنے کے واقعات عام ہیں لیکن ان کی تعداد لڑکیوں سے کافی کم ہے۔ اٹھارہ سال سے کم عمر میں لڑکی کی شادی کر دینے کا مطلب ہے کہ اسے اسکول چھوڑنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ ایسی لڑکیوں کو گھریلو تشدد، جنسی استحصال اور بچے کو جنم دیتے ہوئے موت کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
بھارت کے امراء میں بھی کم عمر کی شادیاں عام
اگرچہ بھارت میں تعلیم کے فقدان اور غربت کو کم عمری کی شادیوں کی وجہ بتایا جاتا ہے لیکن امیر گھرانوں میں بھی چھوٹی عمر میں لڑکیوں کی شادیوں کا رواج عام ہے۔ بھارت کے دیہی علاقوں میں ہر چار میں سے ایک لڑکی اور شہروں میں ہر پانچ میں سے ایک لڑکی کی اٹھارہ سال سے کم عمر میں شادی کر دی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
کم عمر کی شادیوں کو روکنے کے لیے اقدامات
’’ایکشن ایڈ انڈیا‘ کی رپورٹ کے مطابق حکومت کو سوشل میڈیا، اسکولوں کے نصاب اور دیگر ذرائع کے ذریعے کم عمر کی شادی کے بھارتی قانون اور اس سے پیدا پونے والے سماجی مسائل کے بارے میں آگاہی پھیلانی چاہیے۔ اس کے علاوہ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کو یہ قانونی حق دیا جائے کہ وہ کم عمر بچوں کی شادیوں کو روک سکیں۔
تصویر: AP
کچھ سرکاری اقدامات سے فائدہ
حال ہی میں کچھ سرکاری اقدامات سے فائدہ حاصل ہوا ہے۔ حکومت ایسی لڑکی کے اکاؤنٹ میں کچھ پیسے منتقل کرتی ہے جو اٹھارہ سال کی عمر میں تعلیم حاصل کر رہی ہو اور اس کی شادی نہ ہوئی ہو۔ راجھستان میں شادیوں کے ٹینٹ فراہم کرنے والی کمپنی نے بھی کم عمری کی درجنوں شادیوں کو رکوایا ہے۔