’دنیا بھر میں بھارت کی بدنامی کے لیے مودی حکومت ذمہ دار‘
جاوید اختر، نئی دہلی
4 مارچ 2020
ايک غير معمولی پيش رفت ميں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی ہائی کمشنر نے بھارت کے متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کو سپریم کورٹ میں چيلنج کر ديا ہے۔
اشتہار
اس پيش رفت پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اپوزیشن کانگریس پارٹی کی جانب سے کہا گيا ہے کہ ’یہ درست ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف اقو ام متحدہ انسانی حقوق کمیشن کی طرف سے عرضی دائر کیا جانا بھارت کے داخلی معاملات میں غیر ضروری مداخلت ہے لیکن اس افسوس ناک صورت حال کے لیے مودی حکومت خود ذمہ دار ہے‘۔
بھارتی سیاسی جماعت کانگریس کے سینئر رہنما احمد پٹیل نے اپنی ايک ٹوئيٹ میں لکھا، ”بلا شبہ اقوام متحدہ کی طرف سے دائر کردہ درخواست ہمارے اندرونی معاملات میں غیر ضروری مداخلت ہے۔ لیکن اس افسوس ناک صورتحال کے لیے کون ذمہ دار ہے؟ بھارت سرکار نے ایک ایسا قانون بنا کر، جو انسانی حقوق کے عالمی تقاضوں کی خلاف ورزی کرتا ہے، خود ہی دوسروں کے لیے مداخلت کا دروازہ کھول دیا ہے۔“ بھارت کے سابق وزیر خارجہ کنور نٹور سنگھ نے بھی اس پيش رفت کو ’بھارت کی سفارتی تاریخ میں ایک انتہائی غیر معمولی واقعہ‘ قرار دیا ہے۔
اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق (یو این ایچ آر سی) مچل بیچلیٹ جیریا نے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف سپریم کورٹ میں گزشتہ روز ایک درخواست دائر کرائی۔ یہ درخواست بھارت میں سی اے اے کے خلاف جاری احتجاج کے بعد دائر کرائی گئی ہے۔ احتجاجی مظاہروں میں تقریباً تین درجن افراد ہلاک اور درجنوں دیگر زخمی ہو چکے ہیں جب کہ سینکڑوں افراد کو جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔ حالات اس وقت انتہائی خراب ہوئے جب سی اے اے کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف تيئس فروری کو بھارتی دارالحکومت میں بد ترین فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے، جن میں تقریباً پچاس افراد ہلاک ہوئے جبکہ تین سو سے زیادہ زخمی اب بھی ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔
یو این ایچ آر سی نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کر کے شہریت ترمیمی قانون پر اعتراضات درج کرائے ہیں۔ بچلیٹ نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے ضابطے کے تحت یہ درخواست دائر کر رہی ہیں۔ انہوں نے سی اے اے کے دائرے کو سنگین قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قانون بھارت آنے والوں کے لیے صرف مذہبی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ یہ قانون چند مخصوص نسلی مذہبی گروپ تک محدود ہے جبکہ اقوام متحدہ کی کنونشنوں اور اعلامیوں کے مطابق تمام شہری اور تارکین وطن، خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، کے ليے برابر حقوق ہونے چاہيیں۔ بھارت بھی اس کنونشن پر عمل کرنے کا پابند ہے۔
بھارت نے اقوام متحدہ کے اس اقدام پر نکتہ چینی کی ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے کہا، ’’شہریت ترميمی قانون بھارت کا اندرونی معاملہ ہے اور یہ قانون سازی کے حوالے سے پارلیمان کی خود مختاری کے حق سے متعلق ہے۔“ رویش کمار کا مزید کہنا تھا، ”بھارتی حکومت واضح طور پر یقین رکھتی ہے کہ کسی بھی بیرونی فریق کو یہ اختیار نہیں کہ وہ بھارت کی خود مختاری سے متعلق معاملے پر کارروائی کا مطالبہ کرے۔"
واضح رہے کہ گزشتہ برس گيارہ دسمبر کو ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے بھارتی پارلیمان سے شہریت ترمیمی قانون منظور کیا تھا، جس کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے بھارت آنے والے ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اور عیسائیوں کو بھارتی شہریت دی جائے گی لیکن مسلمانوں کو اس سے محروم رکھا گیا ہے۔
شہريت سے متعلق نيا بھارتی قانون مذہبی کشيدگی کا سبب
بھارت ميں منظور ہونے والے شہريت ترميمی بل کے ناقدين کا کہنا ہے کہ يہ نيا قانون سيکولر اقدار اور مسلمانوں کے خلاف ہے۔ اس قانون کی مخالفت ميں جاری ملک گير احتجاج دن بدن زور پکڑتا جا رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/A. Solanki
بھارت کے کئی علاقوں ميں انٹرنيٹ سروس معطل
رواں سال کے اواخر ميں ستائيس دسمبر کے روز بھارتی حکومت نے ملک کے کئی حصوں ميں سکيورٹی بڑھانے اور انٹرنيٹ کی ترسيل بند کرنے کے احکامات جاری کيے۔ شمالی رياست اتر پرديش ميں بھی اب انٹرنيٹ کی سروس معطل ہے۔ خدشہ ہے کہ شہريت ترميمی بل کی مخالفت ميں مظاہروں کی تازہ لہر شروع ہونے کو ہے۔ يہ متنازعہ بل گيارہ دسمبر کو منظور ہوا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA/I. Khan
بھارتی سيکولر آئين کا دفاع
بھارت ميں منظور ہونے والا نيا قانون پاکستان، بنگلہ ديش اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے ہندوؤں، سکھوں، پارسيوں، بدھ، جين اور مسيحيوں کے ليے بھارت ميں ’فاسٹ ٹريک‘ شہريت کے حصول کی راہ ہموار کرتا ہے۔ ناقدين کا کہنا ہے کہ يہ قانون مسلمانوں کے حوالے سے امتيازی ہے اور مذہب کی بنياد پر شہريت دينا بھارت کی سيکولر اقدار کی خلاف ورزی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Boro
شہريت ثابت کرنے سے متعلق متنازعہ پروگرام
بھارتی حکومت ايک اور منصوبے پر کام کر رہی ہے، جس کے تحت بغير دستاويزات والے غير قانونی مہاجرين کو نکالا جا سکے گا۔ ناقدين کو خدشہ ہے کہ اگر ’نيشنل رجسٹر آف سيٹيزنز‘ پر ملک گير سطح پر عملدرآمد شروع ہو جاتا ہے، تو بھارت کے وہ شہری جو اس منصوبے کی شرائط کے تحت اپنی شہريت يا بھارت سے تعلق ثابت کرنے ميں ناکام رہے، ان کی شہريت ختم کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/S. Sen
آزاد خيال دانشور حکومتی پاليسيوں سے نالاں
بھارت میں کئی آزاد خيال دانشور نئے قانون اور ’نيشنل رجسٹر آف سيٹيزنز‘ پر کھل کر تنقيد کر رہے ہيں۔ ان ميں معروف مصنفہ ارندھتی رائے پيش پيش ہيں۔ قدامت پسند سياستدان اور سابق کامرس منسٹر سبرامنين سوامی نے ارندھتی رائے کی گرفتاری کا مطالبہ کر رکھا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Sharma
بھارتی طلباء متحرک
بھارت کے متعدد شہروں کی ان گنت يونيورسٹيوں کے طلباء نے تازہ اقدامات کے خلاف احتجاج جاری رکھا ہوا ہے۔ ملک گير سطح پر جاری مظاہروں ميں کئی طلباء تنظيميں سرگرم عمل ہيں۔ نوجوان نسل اپنا پيغام پہنچانے اور لوگوں کو متحرک کرنے کے ليے سماجی رابطوں کی ويب سائٹس کا بھی سہارا لے رہے ہيں۔
تصویر: DW/A. Ansari
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی
بھارتی حکام نے احتجاج کچلنے کے ليے ہزاروں پوليس اہلکاروں کو تعينات کيا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں اور مظاہرين کے درميان جھڑپوں ميں اب تک پچيس سے زائد افراد ہلاک بھی ہو چکے ہيں۔ بھارتی آرمی چيف نے بھی احتجاجی مظاہروں ميں طلباء کی شموليت کو تنقيد کا نشانہ بنايا ہے۔
تصویر: AFP/B. Boro
ہندو قوم پرست اب بھی اپنے موقف پر قائم
تمام تر مخالفت اور احتجاج کے باوجود وزير اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتيہ جنتا پارٹی اب بھی اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی ہے۔ پارٹی رہنماوں کا کہنا ہے کہ احتجاج کرنے والوں کو غلط معلومات فراہم کی گئی ہيں اور لوگوں کو قانون کا مطلب نہيں معلوم۔ بی جے پی احتجاجی ريليوں کا الزام حزب اختلاف کی جماعت کانگريس پر عائد کرتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Singh
شہريت ترميمی بل کے حامی
راشتريہ سوايمسيوک سانگھ يا آر ايس ايس انتہائی دائيں بازو کی ايک ہندو قوم پرست جماعت ہے۔ بی جی پی اسی جماعت سے نکلی ہے۔ آر ايس ايس کے کارکن بھی اس متنازعہ قانون کے حق ميں سڑکوں پر نکلے ديکھے گئے ہيں۔