1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دنیا بھر میں تارکین وطن کے خلاف عدم برداشت میں اضافہ

24 ستمبر 2020

عالمی سطح پر امیگریشن کے خلاف عدم برداشت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ رواداری کی کم ترین سطح یورپی یونین میں شامل چند ممالک میں پائی جاتی ہے۔

England | Fremdenfeindliche Proteste in Dover
تصویر: Getty Images/C. Furlong

گیلپ کے ایک نئے سروے کے مطابق یورپی یونین کے چند رکن ممالک امیگریشن کے ضمن میں سب سے کم رواداری کے حامل ممالک ہیں اور ان کے ساتھ عالمی سطح پر امیگریشن کے خلاف عدم رواداری میں اضافہ ہوا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو امریکی حکومت کی  امیگریشن پالیسی کتنی بھی عدم روادار ہو، امریکی عوامی رویہ تارکین وطن مخالف حکومتی پالیسی کو ہمیشہ رد کرتا ہے۔ 

گیلپ کے تازہ ترین 'مائیگرینٹ ایکسپٹنس انڈکس‘ نے یہ انکشاف کیا ہے کہ 2016ء سے 2019ء کے درمیان تارکین وطن سے متعلق رواداری میں عالمی سطح پر واضح کمی آئی ہے۔ اس سروے کے نتائج سے یہ بھی پتا چلا کہ تارکین وطن کے ساتھ کم ترین رواداری رکھنے والے متعدد ممالک کا تعلق یورپی یونین سے ہے۔ اس سروے میں شریک ہونے والے افراد سے تین اہم امور کے بارے میں ان کی رائے لے کر اندازہ لگایا گیا کہ ان میں تارکین وطن افراد  کو اپنے معاشروں میں تسلیم کرنے اور ان سے رواداری کا سلوک رکھنے کے رجحان کی سطح کیا ہے۔ پہلی بات جو ان سے پوچھی گئی وہ یہ تھی کہ وہ تارکین وطن کے اپنے ملک میں رہائش پذیر ہونے کے بارے میں کیا خیال کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ کیا وہ تارکین وطن افراد کو اپنے پڑوسی کی حیثیت سے قبول کرتے ہیں؟ اور تیسرے یہ کے تارکین وطن اگر اُن کی فیملی ممبران میں سے کسی کے ساتھ شادی کریں تو وہ اس عمل کو کیسا سمجھتے ہیں؟ ان تین عوامل کی بنیاد پر اسکور دیا گیا۔ 2006ء میں ان عوامل پر اوسط اسکو 5.34 تھا جو 2019ء میں کم ہو کر5.21 ہو گیا ہے۔ سب سے زائد اسکور نو تھا۔

تارکین وطن کے بارے میں رواداری کے رویوں میں سب سے زیادہ کمی جنوبی امریکا میں دیکھی گئی جہاں متعدد ممالک نے وینزویلا سے بڑی تعداد میں آنے والے تارکین وطن کا تجربہ کیا۔ کولمبیا جو مہاجرین کا سب سے زیادہ بوجھ اٹھانے والی ریاست مانی جاتی ہے، وہاں سروے سے پتا چلا کہ مہاجرین کے بارے میں مثبت رائے دینے والوں کی شرح 61 فیصد سے گر کر 29 فیصد پر آ پہنچی ہے۔  

     

برطانیہ میں امیگریشن مخالف مظاہرین سڑکوں پر۔تصویر: Getty Images/C. Furlong

یورپی یونین میں امیگریشن کی طرف رویہ

تارکین وطن کی طرف رواداری کے رویے کے اعتبار سے سوئٹزرلینڈ اور بیلیجم میں واضح کمی آئی ہے۔ اس سروے کے مطابق یورپی یونین کے رکن ممالک ہنگری، کروشیا، لٹویا اور سلوواکیہ تارکین وطن کو کم سے کم برداشت کرنے والے دس ممالک میں شامل تھے ۔ اُدھر بلقان کے مزید چار ممالک بھی اس فہرست میں شامل ہوگئے ہیں۔

ایک اور ملک جس نے یورپی یونین کی امیگریشن پالیسی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے اس میں بھی انکشاف ہوا کہ امیگریشن کے بارے میں وہاں بڑے پیمانے پر منفی رویے پائے جاتے ہیں۔ ترکی، جو یورپی بلاک کے ساتھ معاہدے کے ایک حصے کے طور پر تقریباً چار ملین مہاجرین کو پناہ دیے ہوئے ہے، گیلپ کے سروے کے ذریعہ جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق تارکین وطن کے ساتھ بہت کم  رواداری کا سلوک رکھنے والا دسواں ملک ہے۔

ایک حیران کن امر یہ ہے کہ مشرقی یورپی ممالک جو روایتی طور پر تارکین وقت کے لیے عدم رواداری رکھنے والے ممالک تصور کیے جاتے ہیں، گیلپ کے جائزے کے مطابق وہاں رواداری میں مثبت اضافہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر تین سال قبل پولینڈ میں تارکین وطن کے ساتھ رواداری یا مثبت سلوک رکھنے والوں کی شرح 29 فیصد تھی جبکہ اس بار کے گیلپ سروے میں جن پولستانی باشندوں نے حصہ لیا ان میں 42 فیصد نے ملک میں رہاسش پذیر تارکین وطن کو معاشرے کے لیے اچھا قرار دیا۔

روم میں نسل پرستی اور اجانب دشمنی کے خلاف مظاہرہ۔تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Tarantino

کون کون سے ممالک امیگریشن میں فراخ دل ہیں؟

فراخ دلانہ امیگریشن پالیسی کے حوالے سے کینیڈا سر فہرست ہے۔ تارکین وطن کے ساتھ سب سے زیادہ رواداری کا سلوک رکھنے والے ممالک کی فہرست میں کینیڈا 92 فیصد مثبت رویے کے ساتھ سب سے اوپر ہے اس کے بعد آئس لینڈ اور نیوزی لینڈ کا نمبر آتا ہے۔ یورپ کے محض دو ممالک ٹاپ ٹین کی فہرست میں شامل ہیں۔ سویڈن اور آئر لینڈ۔

امریکا میں  صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی طرف سے امیگریشن مخالف پالیسیوں کے سلسلے کے باوجود، عام طور پر امیگریشن کے حامی رویوں کے سبب یہ ملک چھٹے نمبر پر آیا۔

جب امریکی باشندوں سے تارکین وطن کے ان کے پڑوسی بن جانے کے بارے میں ان کا خیال پوچھا گیا تو، 90 فیصد امریکی جواب دہندگان نے کہا کہ یہ اچھی بات ہے۔ اس سروے میں جن لوگوں نے ٹرمپ کی حمایت کی ان کا 9 کے اسکور میں سے اوسط 7.1 رہا۔

ک م / ا ب ا (الیکس بیری)

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں