ایک بین الاقوامی تھنک ٹینک کے مطابق روزمرہ کے اخراجات کے متعلق فکر مندیوں، موسمیاتی تبدیلیوں اوریوکرین پر روس کے حملے نے جمہوریتوں کے لیے ایک بڑا چیلنج پیدا کردیا ہے۔
اشتہار
اسٹاک ہولم میں قائم ایک تھنک ٹینک کے مطابق دنیا کے تقریبا ً نصف ملکوں میں جمہوریت میں کمزوریاں نظر آرہی ہیں۔
انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ڈیموکریسی اینڈ الیکٹورل اسسٹنس (آئیڈیا) نامی تھنک ٹینک نے جمعرات کے روز جاری کردہ اپنی ایک سروے رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا کے 173ممالک میں سے 85 نے گزشتہ پانچ سالوں میں جمہوری کارکردگی کے کم از کم ایک اہم اشارے میں کمی کا سامنا کیا ہے۔
اسٹاک ہولم میں قائم اس تھنک ٹینک نے کہا کہ انتخابات میں دھاندلی سے لے کر آزادی اظہار اور اجتماع کرنے کے حق میں تخفیف جیسے اسباب کی وجہ سے جمہوریت کو دھچکے لگے۔ نمائندگی اور قانون کی حکمرانی جیسے دیگر عناصر کو لگنے والے دھچکے بھی جمہوریت کی کارکردگی میں کمی کے دیگر اسباب رہے۔
اس رپورٹ میں "امریکہ میں سماجی گروپوں کے لیے مساوات،آسٹریا میں آزادی صحافت اور برطانیہ میں انصاف تک رسائی میں کمی" کا بھی ذکر کرتے ہوئے ان پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
آئیڈیا کے سکریٹری جنرل کیون کساس زمورا نے کہا،" مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ جمہوریت اب بھی مشکل میں ہے، بلکہ یہ جمود کا شکار ہے اور بہت سی جگہوں پر زوال پذیر ہے۔"
یورپی اقدار کیا ہيں؟
آزادی، برابری، جمہوریت: یورپی اقدار اکثر سننے میں بہت مقدس لگتی ہیں لیکن کیا واقعی ایسا ہی ہے؟ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کہ اگر یورپ میں ایک سو افراد رہائش پذیر ہوں، تو مختلف معاملات پر ان کی رائے کيا ہو سکتی ہے۔
کيا مرد، خواتین کی نسبت بہتر سیاسی رہنما ہوتے ہيں؟
یورپی پارلیمان کے انتخابات سے قبل یورپی اقدار کے بارے میں بحث ايک مرتبہ پھر چھڑ گئی ہے۔ لیکن در حقیقت یورپی اقدار ہیں کیا؟ ایک سروے کے مطابق ہر 100 میں سے 29 یورپی شہریوں کی رائے میں مرد، خواتین کی نسبت بہتر سیاسی رہنما ثابت ہوتے ہیں۔
سیاسی تشدد اور رشوت ناقابل قبول
یورپی شہریوں کی اکثریت سیاسی تشدد کے خلاف ہے اور رشوت کی بھی شديد مخالفت کرتی ہے۔ ’یورپین ویلیوز اسٹڈی‘ میں آسٹریا، بیلاروس، بلغاریہ، کروشیا، چیک ری پبلک، جرمنی، آئس لینڈ، پولینڈ، روس، سلوواکیہ، سلوینیا، ہسپانیہ، سوئٹزرلینڈ اور ہالينڈ کے شہریوں کے خیالات جانے گئے۔
ویڈیو کے ذریعے نگرانی
لگ بھگ نصف یورپی شہریوں کا کہنا ہے کہ عوامی مقامات پر کیمروں کے ذریعے نگرانی کی جانی چاہیے۔ لیکن نصف شہریوں کی رائے میں ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
مذہب پر بھی رائے منقسم
ہر ایک سو افراد میں سے صرف 38 جنت پر یقین رکھتے ہیں، جن ميں سے تينتيس خود کو مذہبی تصور کرتے ہيں جبکہ بقيہ نہيں۔ ہر ایک سو میں سے صرف 29 افراد کو دوزخ کے ہونے پر یقین ہے۔
ہم جنس والدین
آئس لینڈ میں ہر ایک سو میں سے 88 افراد کی رائے ميں ہم جنس پرست جوڑوں کو بچے گود لينے اور ان کی پرورش کرنے کی اجازت ہونی چاہيے۔ روس میں صرف دس فیصد اس رجحان کی حمایت کرتے ہیں۔ تحقیق نے یہ ثابت کر ديا ہے کہ ہم جنس پرست والدین بھی بچوں کی تربیت عام والدین کی طرح ہی کر سکتے ہيں۔
پچیس فیصد مسلمانوں کو بطور پڑوسی نہیں چاہتے
اس سروے کے مطابق ہر ایک سو میں سے پچیس شہریوں کا کہنا تھا کہ وہ تارکین وطن اور مسلمانوں کو اپنے پڑوسی کے طور پر نہیں چاہتے۔ ایک سو میں سے 12 نے کہا کہ وہ یہودی کے ساتھ بطور پڑوسی رہنا پسند نہیں کریں گے۔ صرف پانچ فیصد افراد ایسے تھے جو مسیحیوں کو بطور پڑوسی پسند نہیں کرتے۔
یورپی اقدار
یہ تمام اعداد و شمار ’یورپیئن ویلیوز اسڈی‘ سے حاصل کیے گئے ہيں۔ اس سروے میں ہر دس سال بعد یورپی شہریوں سے سینکڑوں سوالات پوچھے جاتے ہیں تاکہ تنوع، سیاست اور دیگر معاملات پر ان کی رائے جانی جا سکے۔ اس رپورٹ ميں شامل تحقيق کا آغاز 2017ء میں ہوا تھا۔
7 تصاویر1 | 7
یورپی جمہوریتیں بھی زوال پذیر ہیں
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالانکہ جمہوریت کے حوالے سے یہ سب سے زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والا خطہ ہے لیکن آسٹریا، ہنگری، لکسمبرگ، نیدرلینڈز، پولینڈ، پرتگال اور برطانیہ میں جمہوریتیں زوال پذیر ہیں۔
اس کے علاوہ آذربائیجان، بیلاروس، روس اور ترکی جیسے ممالک نے یورپی اوسط سے کم کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
آئیڈیا کے پروگرام افسرمائیکل رونی کا کہنا تھا کہ،"یہ چھٹا سال ہے جب ہم زیادہ سے زیادہ ملکوں میں جمہوریت میں بہتری کے بجائے زوال دیکھ رہے ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا،"ہم یورپ، شمالی امریکہ اور ایشیا میں تاریخی طور پر اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی جمہوریتوں میں بھی کمی دیکھ رہے ہیں۔"
اشتہار
زوال کا سبب کیا ہے؟
تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ جمہوری کارکردگی میں کمی کو زندگی کے بحران، موسمیاتی تبدیلی اور یوکرین پر روس کے حملے کے پس منظر میں بھی دیکھا جانا چاہئے، جس نے منتخب رہنماوں کے لیے بڑے چیلنجز پیدا کردیے ہیں۔
رپورٹ میں کووڈ انیس کے وبا کا خاص طورپر ذکر کیا گیا ہے۔
کاساس زمورا نے کہا کہ اداروں میں زوال کے باوجود وہ جمہوریت کو برقراررکھنے کی دیگر متبادل شکلوں کے سلسلے میں پرامید ہیں۔
انہوں نے کہا،" جب ہمارے بہت سے روایتی ادارے مثلا ًمقننہ کمزور ہورہی ہیں،ہمیں جمہوریت پر نگاہ رکھنے والے دیگر غیر رسمی اداروں سے امیدیں ہیں۔ صحافیوں سے لے کر انتخابات کے منتظمین اور انسداد بدعنوانی کمشنر آمرانہ اور عوامی مقبولیت کے رجحانات کا کامیابی سے مقابلہ کرسکتے ہیں۔"
جمہوریت اور آزادی کے لیے دنیا بھر میں ہونے والے احتجاج
2019ء کے دوران دنیا کے مختلف حصوں میں لوگ بدعنوانی، غربت، معاشرتی عدم مساوات، نسلی امتیاز اور تحفظ ماحول کے لیے سڑکوں پر نکلے۔ تبدیلی لانے کی شدید خواہش دنیا بھر میں لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑ رہی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Casarez
ہیٹی: ’ہمارے ساتھ انسانوں جیسا سلوک نہیں کیا جاتا‘
ہیٹی میں گزشتہ کئی مہینوں سے احتجاج کے دوران مظاہرین صدر جوونیل موئیز سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہیٹی کی حکومت کو بدعنوانی کے متعدد الزامات کا سامنا ہے۔ عام شہریوں کو ہسپتالوں اور تعلیم و تربیت تک رسائی نہ ہونے کے ساتھ ساتھ کم خوراکی جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ سیاسی اشرافیہ کے خلاف عوامی غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ہیٹی مغربی کرہ کا غریب ترین ملک ہے۔
تصویر: Reuters/V. Baeriswyl
چلی: ناانصافی کے خلاف مزید برداشت نہیں‘
اکتوبر کے آخر سے چلی میں مظاہرے جاری ہیں۔ مظاہرین اصلاحات اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ ان مظاہروں کے دوران اکثر ہلاکتوں اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Silva
بھارت: ’قانون، جو ملک کو تقسیم کر سکتا ہے‘
پھل فروش محمد انس قریشی بھارت میں شہریت کے متنازعہ ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج میں شریک ہیں۔ یہ قانون تین ممالک سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی مہاجرین کی بھارتی شہریت کے حصول کو آسان بناتا ہے۔ تاہم شرط یہ ہے کہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے یہ مہاجرین مسلمان نہ ہوں۔ ان مظاہروں میں اب تک بیس سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
عراق: آخری دم تک ساتھ دینے کا وعدہ‘
عراق میں اکتوبر سے بدعنوانی اور ایران نواز حکومت کے خلاف جاری مظاہروں میں چھیاسٹھ سالہ ام مہدی بھی شریک ہیں۔ اب تک ان مظاہروں میں ساڑھے چار سو سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ وزیر اعظم عبدل عادل مہدی کا استعفی بھی اس احتجاج کی شدت کو کم نہیں کر سکا۔ مظاہرین سیاسی نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
ایران: ’اقتصادی صورتحال انتہائی خراب‘
نومبر میں دو ہفتوں تک جاری رہنے والے مظاہروں کے دوران ایران میں کم از کم پندرہ سو افراد کے ہلاک ہونے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ احتجاج میں شریک یہ شخص اپنی شناخت مخفی رکھتے ہوئے گولیوں کے خول ہاتھ میں لیے ہوئے ہے۔ یہ مظاہرے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف شروع ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/SalamPix
ہانگ کانگ : ’حکومت ہمارے مطالبے تسلیم کرے‘
ہانگ کانگ میں احتجاج میں شریک یہ دونوں خود کو لبرٹی گرل اور لٹل برادر کہتے ہیں۔ چین کا خصوصی انتظامی علاقہ ہانگ کانگ آج کل شدید ترین سیاسی بحران کا شکار ہے۔ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف یہ مظاہرےجون سے جاری ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
فرانس: ’صرف امیروں کا تحفظ‘
دیدیئر بیلاک فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کی تجویز کردہ اصلاحات کے خلاف مظاہروں میں شریک ہیں۔ اس احتجاج اور ہڑتال کی وجہ سے ٹرینوں اور میٹرو کی آمد و رفت خاص طور پر متاثر ہوئی ہے۔ ابھی تک اس بحران کا کوئی حل دکھائی نہیں دے رہا۔ گزشتہ برس موسم سرما میں بھی ’زرد جیکٹ‘ نامی احتجاج کے دوران ماکروں کے اصلاحاتی ایجنڈے پر شدید تنقید کی جا چکی ہے۔
تصویر: Reuters/B. Tessier
بولیویا: ’حکومت ہمارے وطن کو فروخت کر رہی ہے‘
ریویرا زمپانو نے مستعفی ہونے والے ملکی صدر ایوو مورالیس کے دیگرحامیوں کے ساتھ مل کر سڑک کی ناکہ بندی کی تھی۔ مورالیس کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال اور دہشت گردی کے الزامات عائد کیے جانے کے خلاف کئی ہفتوں تک مظاہرے کیے گئے تھے۔ تاہم ان مظاہرین کے برعکس زمپانو کا موقف ہے کہ بولیویا کی عبوری حکومت ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔
تصویر: Reuters/M. Bello
کولمبیا:’ انقلاب کے بعد ہی تبدیلی‘
اندریس فیلیپے نے دسمبر کے اوائل میں ملکی سربراہ مملکت ایوان دوکے کے خلاف ہونے میں مظاہروں میں شرکت کی۔ مظاہرین سماجی شعبے میں منصفانہ پالیسیوں، تعلیم و تربیت کے لیے مزید رقم مختص کرنے اور صحت کے بہتر نظام کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے لیے سرگرم افراد کے بہتر تحفظ کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان کا ایک مطالبہ سابقہ فارک باغیوں کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے پر مکمل طور پر عمل درآمد بھی تھا۔
تصویر: Reuters/L. Gonzalez
لبنان:’ گزشتہ تیس برسوں سے یہ ہمیں لوٹ رہے ہیں‘
اکتوبر سے لبنان میں گاہے بگاہے مظاہرے دیکھے گئے ہیں۔ یہ لوگ بدعنوانی اور غلط اقتصادی پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوئے۔ وزیر اعظم سعد الحریری کے مستعفی ہونے کے بعد بھی حبا غوسن جیسے شہری نئے نامزد کردہ حکومتی سربراہ حسن دیاب کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ حسن دیاب کو شیعہ تنظیم حزب اللہ کی حمایت حاصل ہے۔