دنیا بھر میں حصول تعلیم سے محروم سولہ کروڑ بچے مشقت پر مجبور
10 جون 2022
اقوام متحدہ کے بچوں کے امدادی ادارے یونیسیف نے دنیا بھر میں حصول تعلیم کے بجائے مشقت پر مجبور بچوں کی تعداد میں کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث مزید اضافے کے خلاف خبردار کیا ہے۔ اس وقت سولہ کروڑ بچے مشقت پر مجبور ہیں۔
اشتہار
یونیسیف کی طرف سے جمعہ دس جون کے روز جرمن شہر کولون میں بتایا گیا کہ کورونا کی عالمی وبا دنیا کے تقریباﹰ سبھی خطوں اور ممالک کی معیشتوں کے لیے تباہ کن اثرات کی وجہ بنی۔ اس لیے عالمی سطح یہ خدشہ اپنی جگہ موجود ہے کہ مشقت پر مجبور وہ بچے، جنہیں اپنی عمر کے لحاظ سے تعلیم کے لیے اسکولوں میں ہونا چاہیے تھا، ان کی تعداد بڑھی ہے اور آئندہ مزید بڑھے گی۔
اشتہار
بچوں سے لی جانے والی مشقت کے خلاف عالمی دن
بچوں کے اس امدادی ادارے کے مطابق کورونا کی وبا کے باعث رواں سال کے اختتام تک مختلف ممالک میں مزید نو ملین بچے مشقت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ یہ بات اس لیے بھی باعث تشویش ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں سولہ کروڑ (160 ملین) بچے تو پہلے ہی اپنا اور اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالنے کے لیے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔
یونیسیف نے یہ اعداد و شمار ہر سال بچوں سے لی جانے والی مشقت کے خلاف عالمی دن کی مناسبت سے جاری کیے ہیں۔ اس سال یہ عالمی دن اتوار 12 جون کو منایا جا رہا ہے۔
اب تک ہونے والی پیش رفت بری طرح متاثر
کولون میں یہ اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے یونیسیف جرمنی کے مینیجنگ ڈائریکٹر کرسٹیان شنائڈر نے بتایا کہ کورونا وائرس کی عالمگیر وبا کے باعث وہ پیش رفت بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے، جو اس وبا سے پہلے تک بچوں سے لی جانے والی مشقت کے خلاف بین الاقوامی سطح پر دیکھنے میں آ چکی تھی۔
کرسٹیان شنائڈر کے الفاظ میں، ''عالمی برادری نے اپنے لیے یہ ہدف طے کیا تھا کہ بچوں سے لی جانے والی مشقت 2025ء میں ختم ہو جائے گی۔اب ہمیں اس ہدف کے حصول کے لیے اور بھی زیادہ توانائی سے کوششیں کرنا چاہییں، ورنہ کورونا کی وبا کے اثرات کے سبب یہ ہدف ہماری پہنچ سے اس سے بھی زیادہ دور ہو جائے گا، جتنا وہ اب تک ہے۔‘‘
پاکستان کے ایک کروڑ مشقتی بچے
پاکستان میں بچوں سے مشقت کروانا قانونا منع ہے لیکن یونیسیف کے اعداد و شمار کے مطابق آج بھی قریب ایک کروڑ پاکستانی بچے زندہ رہنے کے لیے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ تعداد ملکی آبادی کا پانچ فیصد بنتی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
معذور کمہار کا محنتی بیٹا
غلام حسین کا والد ٹانگوں سے معذور ہے۔ باپ گھر میں مٹی کے برتن بناتا ہے، جنہیں اپنی ریڑھی پر بیچنے کے لیے بیٹا ہر روز صبح سویرے گھر سے نکلتا ہے۔ غلام حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اسے اکثر پانچ چھ سو روپے روزانہ تک آمدنی ہوتی ہے، کبھی کبھی ایک ہزار روپے تک بھی۔ لیکن سارا دن سڑکوں کی خاک چھاننے کے بعد کبھی کبھار وہ رات کو خالی ہاتھ بھی گھر لوٹتا ہے، تب وہ اور اس کے گھر والے بہت اداس ہوتے ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
تعلیم کے بجائے تربوز فروشی
اسلام آباد کے سیکٹر جی الیون میں تربوز بیچنے والے یہ دونوں بھائی کبھی اسکول نہیں گئے۔ بڑا لیاقت بیگ پانچ سو روپے دیہاڑی پر یہ کام کرتا ہے اور چھوٹا منصور بیگ دو سو روپے یومیہ پر۔ وہ تربوز بیچیں یا کوئی دوسرا پھل، گرمی ہو یا سردی، انہیں سوائے اپنی روزی کمانے کے کسی دوسری چیز کا ہوش نہیں ہوتا۔ لیاقت نے بتایا کہ اس کے گھرانے کی گزر بسر ان دونوں کم سن بھائیوں کی محنت کی کمائی پر ہی ہوتی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
اس تصویر کی سب سے تکلیف دہ بات کیا ہے؟
ایک معصوم بچہ جو ایک کم سن مزدور بھی ہے۔ نسوار اور نئی پشاوری چپل بیچنے کے ساتھ ساتھ ایک غریب گھرانے کا یہ لڑکا جوتے اور بیگ وغیرہ بھی مرمت کرتا ہے۔ کسی گاہک کے انتظار میں کسی گہری سوچ میں گم اس بچے کی تصویر کا سب سے تکلیف دہ پہلو دائیں طرف کونے میں نظر آنے والی اس کی کاپی ہے۔ جسے اس عمر میں اسکول میں زیر تعلیم ہونا چاہیے تھا، وہ فٹ پاتھ پر جوتے مرمت کر رہا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
اسکول بیگ کے بجائے دھوپ کے چشمے
اس چودہ سالہ لڑکے محمد حنیف کا تعلق پشاور سے ہے لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے وہ اپنے والدین کے ساتھ اسلام آباد رہائش پذیر ہے۔ پہلے وہ اسکول جاتا تھا، لیکن استاد کے ہاتھوں مار پیٹ کے باعث اسے اسکول سے نفرت ہو گئی اور وہ دوسری جماعت سے ہی اسکول سے بھاگ گیا، وہ چند سال تک مکئی کے بھنے ہوئے دانوں کی ریڑھی لگا چکا ہے مگر اب دھوپ کے چشمے بیچتا ہے، جو اس کے نزدیک صاف ستھرا کام ہے اور منافع بھی قدرے زیادہ۔
تصویر: DW/I. Jabeen
سب کچھ کہہ دینے والی ایک نظر
آٹھ سالہ بخشو جان، جو اس وقت سے ایسے رنگا رنگ غبارے بیچ رہا ہے، حالانکہ اس کی اپنی عمر ابھی ایسے غباروں سے کھیلنے کی ہے۔ بخشو نے بتایا کہ وہ اور اس کا پورا خاندان یہ غبارے بیچتے ہیں، جو لوگ اپنے بچوں کے لیے خرید بھی لیتے ہیں اور اکثر بغیر کچھ خریدے ہوئے اسے کچھ پیسے بھی دے دیتے ہیں۔ بخشو جان جس طرح اپنے غباروں کو دیکھ رہا ہے، لگتا ہے جیسے اس سوچ میں ہو، ’بیچ دوں یا اپنے ہی پاس رکھ لوں‘۔
تصویر: DW/I. Jabeen
عمر بارہ برس، کام کا تجربہ چار سال
اسلام آباد کی ایک مقامی مارکیٹ میں جوتوں کی ایک دکان پر سیلز بوائے کا کام کرنے والے بارہ سالہ جاوید چوہدری، جینز پہنے ہوئے، کو یہ کام کرتے ہوئے چار سال ہو گئے ہیں۔ جاوید کے بقول اس کے والد کا کافی عرصہ قبل انتقال ہو گیا تھا اور والدہ مختلف گھروں میں کام کرتی ہے۔ جاوید نے بتایا، ’’کئی برسوں سے ہم نے عید پر بھی نئے کپڑے نہیں بنائے۔ مہنگائی بہت ہے اور ہمارا گزارہ پہلے ہی بڑی مشکل سے ہوتا ہے۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
جو خود پہننا چاہیے، وہ بیچنے پر مجبور
سات سالہ وقاص احمد راولپنڈی کے علاقے راجہ بازار کا رہائشی ہے اور وہیں ایک اسٹال پر ریڈی میڈ کپڑے بیچتا ہے۔ گاہکوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے وہ بار بار ’ہر سوٹ، سو روپے‘ کی آواز لگاتا ہے۔ وقاص نے ڈی دبلیو کو بتایا کہ وہ یہ کام دو سال سے کر رہا ہے اور کبھی اسکول نہیں گیا۔ ’’ہمارے خاندان کا کوئی بچہ اسکول نہیں جاتا۔ سب چھوٹی عمر سے ہی اسٹال لگاتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
ایک بالغ سیلز مین اور دو ’چھوٹے‘
راولپنڈی میں خواتین کے لیے گرمیوں کے ڈوپٹوں کی ایک دکان، جس میں ایک بالغ سیلز مین اور اس کے دو کم سن معاون دیکھے جا سکتے ہیں۔ بچے جن کے اسکول کے بعد کھیلے کودنے کے دن تھے، خواتین کے کڑھائی والے ڈوپٹے بیچنے میں مدد کرتے ہوئے۔ اکثر غریب والدین اپنے چھوٹے بچوں کو سو دو سو روپے روزانہ کے بدلے ایسی دکانوں پر دن بھر کام کرنے کے لیے بھیج دیتے ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
گھروں میں صفائی کرنے والی کم سن بچیاں
اسلام آباد کی ایک کچی آبادی کی رہائشی یہ بچی اپنے گھر سے دور چند گھروں میں برتن اور کپڑے دھونے کے علاوہ صفائی کا کام بھی کرتی ہے۔ دن کے پہلے حصے میں ایک پرائمری اسکول میں دوسری جماعت کی طالبہ اور سہ پہر کے وقت ایک ایسی کم سن ایماندار گھریلو ملازمہ، جو جانتی ہے کہ اس کے والدین کی مجبوری ہے کہ وہ بھی محنت کر کے کچھ کمائے کچھ اور اس کے خاندان کا گزارہ ہو۔
تصویر: DW/I. Jabeen
گرمیوں میں برف، سردیوں میں بُھنی ہوئی مکئی
اسلام آباد میں ایک سڑک کے کنارے محنت کرنے والے یہ دونوں نابالغ بھائی گرمیوں میں یہاں برف بیچتے ہیں اور سردیوں میں بُھنی ہوئی مکئی۔ پاکستان کے ایسے کئی ملین بچوں کو یہ علم ہی نہیں کہ دنیا میں ہر سال بارہ جون کو بچوں سے لی جانے والی مشقت کے خلاف کوئی عالمی دن منایا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان پاکستانیوں کے روشن مستقبل کے لیے حکومت کیا اپنے تمام فرائض پورے کر چکی ہے؟
تصویر: DW/I. Jabeen
مڈل اسکول کے بجائے موٹرسائیکلوں کی ورکشاپ
ایک موٹر سائیکل ورکشاپ پر کام کرنے والا یہ بچہ اپنی عمر کے لحاظ سے کسی مڈل اسکول کا اسٹوڈنٹ ہونا چاہیے تھا لیکن غربت اور بھوک کے خلاف جنگ ایسے بچوں کے والدین کو اپنی اولاد کو ایسے کاموں پر ڈالے دینے پر مجبور کر دیتی ہے، جہاں سے وہ روزانہ سو دو سو روپے کما کر لا سکیں۔ وہ بچے جو تعلیم یافتہ پیشہ ور ماہرین بن سکتے ہیں، انہیں موٹر سائیکل مکینک یا خوانچہ فروش بنا دینا معاشرے کے لیے گھاٹے ہی کا سودا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
اس بچے کے ساتھ ناانصافی کا ذمے دار کون؟
محض چند برس کی عمر میں ریڑھی پر پھل بیچنے والے اس بچے کو تو موسم کی سختیوں سے بھی بچایا جانا چاہیے، بجائے اس کے کہ اس کا آج اور آنے والا کل دونوں محرومی کی داستان بن جائیں۔ اس بچے نے بتایا کہ اسے یاد نہیں کہ اس نے اس طرح پھل بیچنے کے علاوہ بھی کبھی کچھ کیا ہو۔ وہ اسکول جانا چاہتا تھا۔ لیکن اگر وہ ایسا نہیں کر سکا، تو اس کی اس محرومی کا ذمے دار کون ہے؟
تصویر: DW/I. Jabeen
12 تصاویر1 | 12
اب کیا کیا جائے؟
یونیسیف جرمنی کے مینیجنگ ڈائریکٹر کے مطابق دنیا بھر کی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ بچوں کی حفاظت کرتے ہوئے ان کے لیے تعلیم کے حصول اور مشقت سے تحفظ کے لیے نئے امکانات پیدا کریں۔ کاروباری اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ بچوں اور انسانوں کے بنیادی حقوق کا پورا خیال رکھیں۔
کرسٹیان شنائڈر نے کہا، ''ہم معاشرے میں صارفین کے طور پر اپنی زندگی کس طرح گزارتے ہیں اور کن سماجی رویوں کا مظاہرہ کرتے ہیں، اس پہلو پر غور کرتے ہوئے ہم میں سے ہر کوئی اس عمل میں اپنا حصہ ڈال سکتا ہے کہ بچوں کے استحصال کا راستہ روکا جائے۔‘‘
چند سکوں کے عوض بکتی معصومیت
عالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں 168 ملین بچے کان کنی، کارخانوں اور زرعی صنعت میں انتہائی سخت اور نامساعد حالات میں مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
سالانہ یاد دہانی
اقوام متحدہ ہر سال بارہ جون کو چائلد لیبر کے خلاف عالمی دن مناتا ہے۔ اس کا مقصد دنیا بھر میں 168 ملین بچوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کی طرف دھیان مبذول کرانا ہے۔ عالمی ادارہ محنت کے رکن ممالک نے 1999ء میں ایک کنوینشن منظور کیا تھا، جس میں چائلڈ لیبر کی انتہائی بری اقسام کی شدید مذمت کی گئی تھی۔ اس کنوینشن کے تحت اٹھارہ سال سے کم عمر کا ہر فرد بچہ تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: imago/Michael Westermann
بھارت میں تیار کیے گئے تولیہ
بھارتی ریاست تامل ناڈو کی اس فیکٹری میں بچے تولیے تیار کرتے ہیں۔ آئی ایل او کے تخمینوں کے مطابق دنیا کی سب سے بڑے اس جمہوری ملک میں 78 ملین بچوں سے ناجائز مزدوری کا کام لیا جاتا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں پانچ سے سترہ برس کی عمر کے بچوں کی دس فیصد تعداد باقاعدہ بنیادوں پر چائلد لیبر کرتی ہے۔
تصویر: imago/imagebroker
ایک دن کی مزدوری کےعوض صرف 80 سینٹ
لکھنے پڑھنے اور اسکول جانے کے بجائے یہ بچے اینٹیں بناتے ہیں۔ شدید غربت کی وجہ سے بہت سے بچے چائلڈ لیبر پر مجبور کیے جاتے ہیں۔ بھارت میں بھی بچوں کی ایک بڑی تعداد اپنے کبنے کی کفالت کے لیے اپنا پچپن فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ بچے روزانہ کم ازکم دس گھنٹے کام کرتے ہیں اور انہیں یومیہ تقریباﹰ صرف 80 سینٹ مزدروی ملتی ہے۔
تصویر: imago/Eastnews
سستی مزدروی
بھارتی حکومت کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق جنوبی ایشیا کے اس اہم ملک میں 12.6 ملین بچے چائلڈ لیبر کرتے ہیں۔ یہ بچے سڑکوں میں ٹھیلے لگانے کے علاوہ درزی، باورچی خانوں، ریستورانوں میں صفائی ستھرائی اور وزن اٹھانے کے علاوہ بھٹیوں میں بھی کام کرتے ہیں۔ بالغوں کے مقابلے میں ان بچوں کو اجرت بھی کم دی جاتی ہے یعنی اگر ایک کام کے ایک بالغ کو ایک روپے ملتے ہیں تو اسی کام کے ایک بچے کو 33 پیسے دیے جاتے ہیں۔
تصویر: imago/imagebroker
غیر انسانی حالات
عالمی ادارہ محنت کی 2013ء کی سالانہ رپورٹ کے مطابق چائلد لیبر کرنے والوں میں سے پچاس فیصد سے زائد کو انتہائی برے حالات کا سامنا ہوتا ہے۔ انہیں رات گئے تک لمبے اوقات تک کام کرنا پڑتا ہے۔ ان میں سے بہت سے بچے بغیر کسی کانٹریکٹ اور ملازمین کو ملنے والے فوائد کے بغیر ہی مزدوری کرتے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
بنگلہ دیش کی مصنوعات
بنگلہ دیش میں بھی چائلد لیبر کی شرح انتہائی بلند ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف کے مطابق جنوبی ایشیا کی اس ریاست میں تقریباﹰ پانچ ملین بچے ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ ہے۔ انتہائی برے حالات میں تیار کیے جانے والے یہ کپڑے ترقی یافتہ ممالک میں فروخت کیے جاتے ہیں۔
تصویر: imago/Michael Westermann
ایک بڑے شہر میں تنہا
کمبوڈیا میں اسکول جانے والے بچوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ وہاں زیادہ تر بچے اپنے والدین کے ساتھ کام کرتے ہیں جبکہ ہزاروں بچے سڑکوں پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ مثال کے طور پر دارالحکومت پنوم پن میں اس بچی کو اپنی کفالت خود ہی کرنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
فہرست طویل ہے
اگرچہ 2000ء کے بعد عالمی سطح پر مشقت کرنے والوں بچوں کی تعداد کم ہوئی ہے تاہم کئی ایشیائی ممالک بالخصوص بنگلہ دیش، افغانستان، نیپال، کمبوڈیا اور میانمار میں ان معصوم بچوں کی صورتحال تاحال خستہ ہی ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
8 تصاویر1 | 8
تعداد میں کمی کے بعد دوبارہ اضافہ
بین الاقوامی ادارہ محنت آئی ایل او اور اقوام متحدہ کے بچوں کے امدادی فنڈ یونیسیف دونوں کے اعداد و شمار کے مطابق 2000ء سے لے کر 2016ء تک محنت مزدوری پر مجبور کم سن لڑکوں اور لڑکیوں کی عالمی سطح پر تعداد واضح طور پر کم ہو کر 94 ملین رہ گئی تھی۔
لیکن 2016ء سے لے کر 2020ء تک کے عرصے میں اس تعداد میں دوبارہ 8.4 ملین کا اضافہ ہو گیا۔ اس کا نتیجہ یہ کہ اس وقت پوری دنیا میں 160 ملین بچے تعلیم کے لیے اسکولوں میں جانے کے بجائے مشقت کرتے ہیں اور اس سال کے آخر تک اس تعداد میں مزید نو ملین کے اضافے کا خدشہ ہے۔
م م / ع ا (ڈی پی اے، اے ایف پی)
ننھے ہاتھ، بھاری منافع: تُرکی میں چائلڈ لیبر
تعلیم کے بجائے مزدوری: تُرکی میں لاکھوں شامی تارکین وطن کے بچے اسکول نہیں جاتے۔ چائلڈ لیبر پر پابندی کے باوجود بہت سے بچے یومیہ بارہ گھنٹوں تک مزدوری کرتے ہیں۔ ترکی ميں سلائی کے ايک کارخانے کی تصویری جھلکیاں۔
تصویر: DW/J. Hahn
کام کا ڈھیر لگا ہوا ہے
خلیل کی عمر 13 سال ہے اور اس کا تعلق دمشق سے ہے۔ ترک شہر استنبول کے علاقے ’باغجیلار‘ میں واقع سلائی کے کارخانے میں خلیل ہفتے کے پانچ دن کام کرتا ہے۔ اس علاقے ميں سلائی کے بیشتر کارخانوں میں زيادہ تر خلیل کی طرح کے بچے ہی کام کرتے ہیں۔
تصویر: DW/J. Hahn
ساتھ کام کرنے والے بچے
اس ورکشاپ میں سلائی مشینیں بلا ناغہ چلتی ہیں۔ یہاں کام کرنے والے پندرہ ملازمین میں سے چار بچے ہیں، جن کا تعلق شام سے ہے۔ ترکی میں ٹیکسٹائل کی صنعت کے شعبے میں وسیع پیمانے پر بچوں کی مزدوری کی صورت ميں غیر قانونی کام جاری ہے۔ نو عمر بچوں سے نہ صرف کم اجرت پر مزدوری کرائی جاتی ہے بلکہ کاغذات اور کسی بھی قسم کے تحفظ کے بغير کام کرایا جاتا ہے۔
تصویر: DW/J. Hahn
اسکول جانےسے محروم بچے
سوتی کے کپڑے کو چھانٹتے ہوئے 13 سالہ خلیل کہتا ہے، ’’میں مستقبل کے بارے میں نہیں سوچتا۔‘‘ یہاں خواتین کے انڈر گارمنٹس بھی تیار کیے جاتے ہیں۔ چھانٹنا، کاٹنا اور سینا، خلیل کے ساتھ ایک نوجوان خاتون بھی کام کرتی ہيں۔ خلیل اپنے آبائی ملک شام میں تیسری جماعت کا طالب علم تھا لیکن خانہ جنگی کی باعث خلیل کو اپنا مکان اور سب کچھ چھوڑنا پڑا۔ اب خلیل اسکول جانے کے بجائے سلائی کے کارخانے میں کام کر رہا ہے۔
تصویر: DW/J. Hahn
استحصال یا مدد؟
ترکی میں چائلڈ لیبر پر پابندی ہے۔ 15 سال سے کم عمر کے بچوں کو ملازمت دینے پر جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے۔ اس بات سے کارخانے کا مالک بخوبی واقف ہے، اسی لیے وہ اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتا۔ ’میں بچوں کو کام دیتا ہوں تاکہ وہ بھيک مانگنے سے بچ سکیں۔ مجھے معلوم ہے کہ بچوں کو کام دینے پر پابندی ہے۔ لیکن اس طرح سے میں ان کے اہلِ خانہ کی مدد کر رہا ہوں جو کے شاید اس مشکل صورتحال سے باہر نہیں نکل سکيں۔‘
تصویر: DW/J. Hahn
’امید کرتا ہوں کہ میں گھر واپس جا سکوں‘
مُوسیٰ کی عمر بھی 13 سال ہے۔ سلائی کے اس ورکشاپ میں زیادہ تر بچے شام کے شمالی صوبہ ’عفرین‘ کی کُرد آبادی سے تعلق رکھتے ہیں۔ کام کے علاوہ موسیٰ کی کیا مصروفیات ہیں؟ وہ بتاتا ہے، ’’میں فٹ بال کھیلتا ہوں۔ میں امید کرتا ہوں کہ شام میں دوبارہ امن بحال ہوجائے تاکہ ہم گھر واپس جا سکیں۔‘‘ موسیٰ شام واپس جا کر تعلیم حاصل کرکے ڈاکٹر بننا چاہتا ہے۔
تصویر: DW/J. Hahn
سستی ملازمت
اس ورکشاپ میں روزانہ خواتین کے لیے ہزاروں انڈر گارمنٹس مختلف رنگ اور ناپ میں تیار کیے جاتے ہیں۔ ان ملبوسات کی قیمت صرف چند ترکش لیرا ہے۔ ترکی میں بچوں سے مزدوری کرانے کا مقصد چین کے مقابلے میں سستی لیبر کی تياری ہے۔ ترکی میں بچوں کو فی گھنٹہ 50 یورو۔سینٹ سے بھی کم اجرت ادا کی جاتے ہے جبکہ بچوں کے مقابلے میں بالغ مزدور دگنا کماتے ہیں۔
تصویر: DW/J. Hahn
ایک دن میں بارہ گھنٹے کام
آرس گیارہ سال کی بچی ہے اور گزشتہ چار ماہ سے کام کر رہی ہے۔ آرس کی والدہ فی الوقت حاملہ ہیں اور اس کے والد بھی ٹیکسٹائل فیکٹری میں کام کرتے ہیں۔ آرس کے دن کا آغاز صبح آٹھ بجے ہوتا ہے۔ آرس کی ڈیوٹی شب آٹھ بجے ختم ہوتی ہے۔ اس کو دن میں دو مرتبہ کام سے وقفہ لینے کی اجازت ہے۔ تنخواہ کی صورت میں آرس کو 700 ترکش لیرا ماہانہ ملتے ہیں جو تقریبا 153 یورو بنتے ہیں۔
تصویر: DW/J. Hahn
تعلیم: عیش و عشرت کے مانند ہے
چونکہ آرس پیر سے جمعہ تک کام میں مصروف ہوتی ہے اس لیے وہ سرکاری اسکول نہیں جا سکتی۔ تاہم آرس ہفتے کے آخر میں ایک شامی سماجی ادارے کے زیرِ انتظام چلنے والے اسکول میں تعلیم حاصل کرنے جاتی ہے۔ نصاب میں ریاضی، عربی اور ترکش زبان سکھائی جاتی ہے۔ اس سکول کے زیادہ تر اساتذہ کو بھی جنگ کی وجہ سے اپنا ملک ’شام‘ چھوڑنا پڑا تھا۔
تصویر: DW/J. Hahn
کلاس روم سے دوری
چار سے اٹھارہ سال کی عمر کے درمیان کے 70 سے زائد بچے اس چھوٹے سے شامی سکول میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں۔ بعض اوقات خواتین اساتذہ بچوں کے والدین کو قائل کرنے کے لیے ان کے گھر بھی جاتی ہیں۔ یہ اساتذہ والدین سے اپنے بچوں کو کم از کم ایک دن اسکول بھیجنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ تاکہ بچوں کو اپنا مستقبل سوارنے کا موقع مل سکے۔