دنیا بھر میں ساڑھے چھ کروڑ سے زائد انسان ہجرت پر مجبور ہوئے
شمشیر حیدر AFP/dpa
19 جون 2017
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ سال 2016 کے آخر تک دنیا بھر میں خانہ جنگی، تشدد اور جبر کے باعث اپنے گھر چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہونے والے انسانوں کی تعداد 65.6 ملین تھی جو انسانی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ ہے۔
اشتہار
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی جانب سے شائع کی گئی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سن 2016 میں اس سے ایک سال پہلے کی نسبت تین لاکھ جب کہ سن 2014 کے مقابلے میں چھ ملین زیادہ انسان اپنے گھروں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔
بیس جون بروز منگل ’ورلڈ ریفیوجی ڈے‘ منایا جا رہا ہے، اس سے ایک دن قبل جاری کی جانے والی اس رپورٹ کے حوالے سے یو این ایچ سی آر کے سربراہ فیلیپو گرانڈی کا کہنا تھا، ’’جب سے ہم نے اعداد و شمار جمع کرنا شروع کیے ہیں، اس وقت سے اب تک دنیا میں مہاجرین کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے۔ یہ اعداد و شمار کسی صورت قابل قبول نہیں ہیں اور یہ اس بات کا بھی تقاضا کرتے ہیں کہ عالمی بحرانوں کو یکجہتی کے ساتھ حل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔‘‘
صرف گزشتہ سال کے دوران عالمی سطح پر 10.3 ملین لوگ بے گھر ہوئے، جن میں سے چونتیس لاکھ انسانوں نے بین الاقوامی سرحدیں عبور کر کے دوسرے ممالک میں مہاجرت اختیار کی۔
گرانڈی کا مزید کہنا تھا، ’’ان اعداد و شمار کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں ہر تین سیکنڈ بعد ایک انسان مہاجرت اختیار کرنے پر مجبور ہو رہا ہے، اتنے وقت میں تو ایک جملہ بھی نہیں پڑھا جا سکتا۔‘‘ مہاجرت اختیار کرنے والے انسانوں کی اکثریت کا تعلق شام، عراق اور کولمبیا سے ہے۔
مہاجرت پر مجبور زیادہ تر انسانوں نے اپنے وطن کے اندر ہی ہجرت کی۔ گزشتہ برس کے اختتام تک دنیا بھر میں آئی ڈی پیز کی تعداد چالیس ملین سے زیادہ رہی۔ یو این ایچ سی آر کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دوسرے ممالک کی جانب ہجرت کرنے والے 22.5 ملین افراد میں سے نصف تعداد اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کی تھی۔
مسلسل چھ سال سے خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے 5.5 ملین افراد نے دوسرے ممالک کی جانب ہجرت کی۔ یہ تعداد شام کی مجموعی آبادی کا ایک تہائی بنتی ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کا کہنا تھا کہ دنیا شامی تنازعے کو بھولتی جا رہی ہے۔ انہوں نے جنوبی سوڈان کی مسلسل بگڑتی ہوئی صورت حال کا بھی تذکرہ کیا۔ سن 2013 کے اختتام سے لے کر اب تک جنوبی سوڈان کے 3.7 ملین شہری بھی ہجرت پر مجبور ہو چکے ہیں۔
ستر برس قبل فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کے بعد سے لے کر اب تک 5.3 ملین فلسطینی بھی دوسرے ممالک میں بطور مہاجر رہنے پر مجبور ہیں۔
مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے کئی ممالک میں بڑھتی ہوئی شورش مہاجرت کے عالمی بحران کا سبب بنی ہے۔ اس تناظر میں یورپ بھی متاثر ہوا ہے۔ آئیے تصویری شکل میں دیکھتے ہیں کہ اس بحران سے نمٹنے کی خاطر یورپ نے کیا پالیسی اختیار کی۔
تصویر: picture-alliance/PIXSELL
جنگ اور غربت سے فرار
سن دو ہزار چودہ میں شامی بحران کے چوتھے سال میں داخل ہوتے ہی جہاں اس عرب ملک میں تباہی عروج پر پہنچی وہاں دوسری طرف انتہا پسند گروہ داعش نے ملک کے شمالی علاقوں پر اپنا قبضہ جما لیا۔ یوں شام سے مہاجرت کا سلسلہ تیز تر ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی دیگر کئی ممالک اور خطوں میں بھی تنازعات اور غربت نے لوگوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا۔ ان ممالک میں عراق، افغانستان، ارتریا، صومالیہ، نائجر اور کوسووو نمایاں رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پناہ کی تلاش
شامی باشندوں کی ایک بڑی تعداد سن دو ہزار گیارہ سے ہی جنگ و جدل سے چھٹکارہ پانے کی خاطر ہمسائے ممالک ترکی، لبنان اور اردن کا رخ کرنے لگی تھی۔ لیکن سن دو ہزار پندرہ میں یہ بحران زیادہ شدید ہو گیا۔ ان ممالک میں شامی مہاجرین اپنے لیے روزگار اور بچوں کے لیے تعلیم کے کم مواقع کی وجہ سے آگے دیگر ممالک کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ تب مہاجرین نے یورپ کا رخ کرنا بھی شروع کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
طویل مسافت لیکن پیدل ہی
سن دو ہزار پندرہ میں 1.5 ملین شامی مہاجرین نے بلقان کے مختلف رستوں سے پیدل ہی یونان سے مغربی یورپ کی طرف سفر کیا۔ مہاجرین کی کوشش تھی کہ وہ یورپ کے مالدار ممالک پہنچ جائیں۔ بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد کے سبب یورپی یونین میں بغیر ویزے کے سفر کرنے والا شینگن معاہدہ بھی وجہ بحث بن گیا۔ کئی ممالک نے اپنی قومی سرحدوں کی نگرانی بھی شروع کر دی تاکہ غیر قانونی مہاجرین کو ملک میں داخل ہونے سے روکا جا سکے۔
تصویر: Getty Images/M. Cardy
سمندرعبور کرنے کی کوشش
افریقی ممالک سے یورپ پہنچنے کے خواہمشند پناہ کے متلاشی نے بحیرہ روم کو عبور کرکے اٹلی پہنچنے کی کوشش بھی جاری رکھی۔ اس دوران گنجائش سے زیادہ افراد کو لیے کئی کشتیاں حادثات کا شکار بھی ہوئیں۔ اپریل سن 2015 میں کشتی کے ایک خونریز ترین حادثے میں آٹھ سو افراد ہلاک گئے۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔ رواں برس اس سمندری راستے کو عبور کرنے کی کوشش میں تقریبا چار ہزار مہاجرین غرق سمندر ہوئے۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
یورپی ممالک پر دباؤ
مہاجرین کی آمد کے سلسلے کو روکنے کی خاطر یورپی یونین رکن ممالک کے ہمسایہ ممالک پر دباؤ بڑھتا گیا۔ اس مقصد کے لیے ہنگری، سلووینیہ، مقدونیہ اور آسٹریا نے اپنی قومی سرحدوں پر باڑیں نصب کر دیں۔ پناہ کے حصول کے قوانین میں سختی پیدا کر دی گئی جبکہ شینگن زون کے رکن ممالک نے قومی بارڈرز پر عارضی طور پر چیکنگ کا نظام متعارف کرا دیا۔
تصویر: picture-alliance/epa/B. Mohai
کھلا دروازہ بند ہوتا ہوا
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے مہاجرین کی یورپ آمد کے لیے فراخدلانہ پالیسی اپنائی۔ تاہم ان کے سیاسی مخالفین کا دعویٰ ہے کہ میرکل کی اسی پالیسی کے باعث مہاجرین کا بحران زیادہ شدید ہوا، کیونکہ یوں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو تحریک ملی کہ وہ یورپ کا رخ کریں۔ ستمبر سن دو ہزار سولہ میں بالاخر جرمنی نے بھی آسٹریا کی سرحد پر عارضی طور پر سکیورٹی چیکنگ شروع کر دی۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
ترکی کے ساتھ ڈیل
سن دو ہزار سولہ کے اوائل میں یورپی یونین اور ترکی کے مابین ایک ڈیل طے پائی، جس کا مقصد ترکی میں موجود شامی مہاجرین کی یورپ آمد کو روکنا تھا۔ اس ڈیل میں یہ بھی طے پایا کہ یونان پہنچنے والے مہاجرین کو واپس ترکی روانہ کیا جائے گا۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس ڈیل کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ کہا جاتا ہے کہ اس ڈیل کی وجہ سے یورپ آنے والے مہاجرین کی تعداد میں واضح کمی ہوئی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Altan
مہاجرین کا نہ ختم ہونے والا بحران
مہاجرین کے بحران کی وجہ سے یورپ میں مہاجرت مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔ یورپی ممالک ابھی تک اس بحران کے حل کی خاطر کسی لائحہ عمل پر متفق نہیں ہو سکے ہیں۔ رکن ممالک میں مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کا کوٹہ سسٹم بھی عملی طور پرغیرمؤثر ہو چکا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور دیگر کئی ممالک میں بدامنی کا خاتمہ ابھی تک ختم ہوتا نظر نہیں آتا جبکہ مہاجرت کا سفر اختیار کرنے والے افراد کی اموات بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔