جنگوں، تنازعات، ظلم وستم اور استحصال کی وجہ سے دنیا بھر میں اپنے گھروں سے محروم ہونے والے افراد کی تعداد 68.5 ملین تک پہنچ گئی ہے۔ عالمی ادارے نے انسانی بحران کے اس المیے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اقوام متحدہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ دنیا بھر میں مختلف مشکلات کا شکار ہو کر اپنے گھر کو چھوڑ کر ہجرت کرنے والے افراد کی تعداد 68.5 ملین کی ریکارڈ حد تک پہنچ چکی ہے۔
ایسے افراد میں خاص طور پر میانمار کے روہنگیا اور شامی شہری شامل ہیں۔ منگل کے دن جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق بے گھری پر مجبور افراد کی تعداد سن 2017 کے اختتام پر اُس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں تین ملین زیادہ ہے۔ ایک عشرے میں اس تعداد میں پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے۔
لوگ اپنا ملک کیوں چھوڑ رہے ہيں؟
01:01
عالمی ادارے کی اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ جبری بیدخلی اور مہاجرت پر مجبور افراد کی تعداد ایشیائی ملک تھائی لینڈ کی مجموعی آبادی کے مساوی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں ہر ایک سو دس افراد میں سے ایک شخص مہاجر ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ایسے کروڑوں افراد کی دوبارہ آبادکاری کے لیے ایک نئی جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کے سربراہ انٹونیو گوٹیرش نے کہا ہے کہ مہاجرت کے اس المیے سے نمٹنے کی خاطر ایک جامع اور مفصل حکمت عملی اختیار کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ مہاجرین کے عالمی دن کے موقع پر برسلز میں صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ بے گھر ہونے والے ان افراد میں سے 70 فیصد کا تعلق صرف دس ممالک سے بنتا ہے۔
گوٹیرش کے بقول اگر ان دس یا ان میں سے کچھ ممالک میں جاری تنازعات کو حل کرنے کی کوشش کی جائے تو اس مسئلے کو حل کرنا آسان ہو جائے گا۔ گوٹیرش کے مطابق مہاجرت کے بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے سیاسی عزم درکار ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد 16.2 ملین بنتی ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ سن دو ہزار سترہ میں یومیہ چوالیس سو پچاس افراد بے گھر ہوئے یا ہر دو سکینڈ بعد ایک شخص ہجرت پر مجبور ہوا۔ رپورٹ کے مطابق زیادہ تر لوگ اپنے ملک میں ہی مہاجر بنے، جنہیں ملکی سطح پر بے گھر ہونے والے افراد بھی کہا جاتا ہے۔
اعدادو شمار کے مطابق سن دو ہزار سترہ کے اختتام تک دنیا بھر میں ملکی سطح پر بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد چالیس ملین کے قریب بنتی ہے۔ یہ تعداد سن دو ہزار سولہ کے مقابلے میں تقریباً تین ملین زیادہ بنتی ہے۔
ع ب / ع ا / خبر رساں ادارے
2017ء: کس ملک کے کتنے شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے؟
جرمنی میں سن 2017 کے دوران مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ 2017 میں ایک لاکھ اسی ہزار، 2016 میں دو لاکھ اسی ہزار جب کہ سن 2015 میں قریب ایک ملین افراد پناہ کی تلاش میں جرمنی آئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
۱۔ شام
2017ء میں بھی جرمنی میں سب سے زیاد مہاجرین خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے آئے۔ بی اے ایم ایف کے مطابق سن 2017ء میں شام کے پچاس ہزار سے زائد شہریوں نے جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ قریب 92 فیصد شامیوں کو پناہ دی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
۲۔ عراق
عراقی مہاجرین دوسرے نمبر پر رہے اور گزشتہ برس تئیس ہزار چھ سو سے زائد عراقیوں نے جرمنی میں حکام کو پناہ کی درخواستیں دیں۔ چھپن فیصد سے زائد عراقی شہریوں کو پناہ کا حقدار سمجھا گیا۔
۳۔ افغانستان
گزشتہ برس افغان شہریوں کی جرمنی آمد اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں آٹھ فیصد کم ہونے کے باوجود افغان تارکین وطن اٹھارہ ہزار سے زائد درخواستوں کے ساتھ تعداد کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر رہے۔ چوالیس فیصد افغان درخواست گزار پناہ کے حقدار قرار پائے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
۴۔ اریٹریا
افریقی ملک اریٹریا کے دس ہزار سے زائد شہریوں نے بھی جرمنی میں پناہ کی درخواستیں دیں۔ اریٹرین باشندوں کو جرمنی میں پناہ ملنے کی شرح 83 فیصد رہی۔
تصویر: picture alliance/dpa/U. Zucchi
۵۔ ایران
2017ء میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نو ہزار سے زائد شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے اور ان کی درخواستوں کی کامیابی کا تناسب پچاس فیصد کے لگ بھگ رہا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
۶۔ ترکی
ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد حکومتی کریک ڈاؤن کے بعد ساڑھے آٹھ ہزار ترک شہریوں نے جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ ترک شہریوں کو پناہ ملنے کا تناسب اٹھائیس فیصد رہا۔
تصویر: Imago/Chromeorange/M. Schroeder
۷۔ نائجیریا
افریقی ملک نائجیریا سے بھی مزید آٹھ ہزار تین سو تارکین وطن گزشتہ برس جرمنی پہنچے۔ اس برس محض 17 فیصد نائجیرین باشندوں کو جرمنی میں پناہ ملی۔
تصویر: A.T. Schaefer
۸۔ صومالیہ
ساتویں نمبر پر ایک اور افریقی ملک صومالہ رہا، جہاں سے ساڑھے سات ہزار سے زائد نئے تارکین وطن گزشتہ برس پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے۔ دیگر افریقی ممالک کے مقابلے میں صومالیہ کے شہریوں کو پناہ ملنے کا تناسب بھی زیادہ (اسی فیصد سے زائد) رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Skolimowska
۹۔ روس
سن 2017 میں روس سے تعلق رکھنے والے چھ ہزار شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی آئے۔ تاہم روسی شہریوں کو پناہ ملنے کی شرح محض نو فیصد رہی۔
تصویر: Dimitriy Chunosov
۱۰۔ جن کی قومیت معلوم نہیں
اس برس دسویں نمبر پر ایسے تارکین وطن رہے جن کی قومیت شناخت کے بارے میں جرمن حکام کو علم نہیں۔ بی اے ایم ایف کے مطابق ایسے افراد کی تعداد قریب ساڑھے چار ہزار سے کچھ رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
۱۱۔ پاکستان
سن 2011 کے بعد اس برس پاکستانی تارکین وطن تعداد کے اعتبار سے پہلی مرتبہ ٹاپ ٹین ممالک میں شامل نہیں تھے۔ سن 2017 میں قریب ساڑھے چار ہزار پاکستانیوں نے جرمنی میں حکام کو پناہ کی درخواستیں دیں۔