دنیا بھر میں نفرت بھری سیاست میں اضافہ، ایمنسٹی کی رپورٹ
22 فروری 2018
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق دنیا بھر میں نفرت بھری سیاست میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ اس تنظیم کی طرف سے مہاجرین کے حوالے سے یورپی یونین اور امریکی صدر کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
اشتہار
ایمنسٹی نے اپنی ایک سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ عالمی سطح پر پریشان کن ریاستی رویوں کی وجہ سے پھیلنے والی یہی نفرت انگیز سیاست اقلیتوں کے خلاف مسلسل بڑھتے ہوئے امتیازی سلوک کی وجہ بنی ہے۔ ایمنسٹی کے سربراہ سلیل شیٹی نے برطانوی دارالحکومت لندن میں اپنی تنظیم کی سالانہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ سال دو ہزار سترہ کے دوران اہم بین الاقوامی سیاسی شخصیات نے اپنے فیصلوں کے ذریعے سماجی نفرت اور خوف کے ماحول کو تقویت دی۔
اس رپورٹ میں دنیا کے قریب ایک سو ساٹھ ممالک میں انسانی حقوق کی مجموعی صورت حال کا جائزہ لیا گیا ہے۔ گزشتہ برس ستائیس ممالک میں انسانی حقوق کے لیے فعال تین سو بارہ کارکنوں کو قتل بھی کر دیا گیا۔
اس رپورٹ میں دنیا کے ترقی یافتہ اور امیر ممالک کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یورپ کے زیادہ تر لیڈر مہاجرین کے مسئلے کو حل کرنا نہیں چاہتے اور وہ قانونی اور محفوظ ہجرت کے حوالے سے عملی طور پر کچھ بھی کرنے سے گریزاں ہیں، ’’وہ مہاجرین کو اپنے ساحلوں سے دور رکھنے کے لیے ہر ممکن طریقہ اپنا رہے ہیں۔‘‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا نام لیتے ہوئے ان پر تنقید کی ہے۔ کہا گیا ہے کہ امریکی صدر کی طرف سے مخصوص مسلم ممالک کے خلاف سفری پابندیاں عائد کرنے سے نفرت کی سیاست اپنی خطرناک ترین سطح تک پہنچ گئی ہے۔
اسی طرح امریکا کی طرف سے کیوبا میں واقع گوانتاناموبے کی بدنام زمانہ جیل بند نہ کرنے کے فیصلے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس جیل میں تفتیش کے غیرانسانی طریقہ ء کار پر اعتراض کرتے ہوئے کہا گیا ہے، ’’آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس سے دنیا بھر کی ان حکومتوں کو کیا پیغام جاتا ہے، جو تشدد کا استعمال کرتی ہیں۔‘‘
رپورٹ کے مطابق امریکی رویے دنیا کے تمام ممالک پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ میانمار حکومت کے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جبر و ستم کی وجہ سے اس ملک میں بھی اقلیتیں خوف کا شکار ہے۔
اسی طرح چند ساستدانوں کی طرف سے آسٹریا، فرانس، جرمنی اور ہالینڈ میں ہونے والے حالیہ انتخابات کے دوران مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات کے حوالے سے بھی بات کی گئی ہے۔ ان ملکوں میں اقلیتوں کے خلاف ’خوف اور الزام‘ کی سیاست کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ رپورٹ کے اختتام پر کہا گیا ہے، ’’ہمیں نفرت انگیز بیانیے کو مسترد کرتے ہوئے یکجہتی کی ثقافت کو فروغ دینا چاہیے۔‘‘
ہٹلر کی کتاب ’مائن کامپف‘ کے مختلف ایڈیشن
اڈولف ہٹلر کی نفرت انگیز سوانحی عمری اور سیاسی منشور ’مائن کامپف‘ یا ’میری جدوجہد‘ 2016ء سے ایک مرتبہ پھر جرمن کتب خانوں میں فروخت کے لیے دستیاب ہو گی۔
تصویر: Arben Muka
ہٹلر کے دستخطوں کے ساتھ
نازی جرمن رہنما اڈولف ہٹلر کے دستخطوں کے ساتھ بدنام زمانہ کتاب ’میری جدوجہد‘ کا ایڈیشن اعلیٰ افسران کو دیا جاتا تھا یا پھر شادی کے تحائف کے طور پر۔ دنیا بھر میں تاریخی کتب جمع کرنے والے کئی ایسے افراد ہیں، جو اس ایڈیشن کی ایک کاپی کے لیے بڑی سے بڑی رقم ادا کرنے کو تیار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عربی ایڈیشن
’میری جدوجہد‘ کا عربی زبان میں ترجمہ 1950ء میں کیا گیا تھا۔ اس ایڈیشن کے پس ورق پر ہی سواستیکا کے نشان دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/akg-images
’میری جدوجہد‘ فرانسیسی زبان میں
1939ء میں شائع ہونے والے فرانسیسی زبان کے ایڈیشن میں درج ہے کہ ’یہ کتاب ہر فرانسیسی کو پڑھنا چاہیے‘۔ یہ سفارش پہلی عالمی جنگ میں فرانسیسی وزیر جنگ کے فرائض انجام دینے والے مارشل Hubert Lyautey نے کی تھی، جو بعد میں ایک ’نوآبادیاتی منتظم‘ بھی بنے تھے۔ وہ دوسری عالمی جنگ سے قبل ہی انتقال کر گئے تھے۔ دائیں طرف دکھائی دینے والا ایڈیشن بعد میں شائع ہوا تھا۔
تصویر: picture alliance/Gusman/Leemage /Roby le 14 février 2005.
برطانیہ میں اشاعت
دوسری عالمی جنگ کے دوران ہٹلر کی کوشش تھی کہ وہ برطانیہ پر قبضہ کر لے تاہم برطانوی افواج کے حوصلوں کے آگے یہ نازی رہنما ناکام رہا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ برطانیہ میں ماضی کے اس جرمن آمر سے بہت نفرت کی جاتی ہے، لیکن برطانیہ میں ’مائن کامپف‘ کی اشاعت پر لندن حکومت نے کبھی کوئی اعتراض نہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/photoshot
’میری جدوجہد‘ سرخ رنگ میں
جنگی زمانوں کی شخصیات اور حالات و واقعات سے متعلق یادگاری اشیاء میں کسی اور ملک کے شہریوں کو اتنی زیادہ دلچسپی نہیں جتنی کہ اس حوالے سے یادگاری اشیاء جمع کرنے والے امریکیوں کو ہے۔ امریکا کے مقابلے میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو، جہاں ’مائن کامپف‘ کی طلب اتنی زیادہ ہو۔ خصوصی ایڈیشنز کی نیلامی میں وہاں ایک کاپی کی بولی 35 ہزار ڈالر سے شروع ہو سکتی ہے۔
تصویر: F. J. Brown/AFP/Getty Images
ہٹلر افغانستان میں
افغانستان میں سڑک پر لوگ ’میری جدوجہد‘ کھلے عام فروخت کرتے ہیں اور وہاں کے قوانین کے مطابق یہ عمل غیر قانونی نہیں ہے۔ وہاں نازی دور کے پراپیگنڈا پوسٹر بھی بکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سربیا میں نازی آمر کی کتاب
سربیا کے دارالحکومت میں اڈولف ہٹلر کی کتاب ’میری جدوجہد‘ 2013ء میں ایک کتاب میلے میں نمائش کے لیے رکھی گئی تھی۔ تاہم اس ایڈیشن میں تبصرے بھی شامل تھے۔
تصویر: DW/N. Velickovic
ہٹلر کتب خانوں کی کھڑکیوں میں
البانیہ کے دارالحکومت تیرانہ کی سڑکوں پر چلتے ہوئے آپ کی آنکھیں ہٹلر کی آنکھوں سے دوچار ہو سکتی ہیں۔ البانیا کا دارالحکومت غالباﹰ دنیا کا ایسا واحد شہر ہے، جہاں ہٹلر کی کتاب ’مائن کامپف‘ کی جلدیں شیشے کی الماریوں میں یوں کھلے عام رکھی ہوتی ہیں کہ وہ نزدیک سے گزرنے والوں کو دیکھتی رہتی ہیں۔