دنیا بھر کی پارلیمانوں میں خواتین کی نمائندگی بہت کم
6 مارچ 2024منگل کے روز جاری ہونے والی بین پارلیمانی یونین (آئی پی یو) کے ایک انڈیکس کے مطابق جرمنی کی قومی پارلیمان (بنڈسٹاگ) خواتین کی نمائندگی کے لحاظ سے دنیا کے 184 ممالک میں 47 ویں نمبر پر ہے۔
جرمن وفاقی شماریات کے دفتر، ڈیسٹاٹیس کا کہنا ہے کہ بنڈسٹاگ (قومی پارلیماں) کی تقریباً 35 فیصد قانون ساز خواتین ہیں۔
دس برس پہلے کے مقابلے میں جرمنی میں خواتین کی نمائندگی میں ایک فیصد سے زیادہ کی کمی واقع ہوئی ہے۔ آئی پی یو نے اس حوالے سے سن 2014 کی اپنی فہرست میں عالمی سطح پر جرمنی کو 21 ویں نمبر پر رکھا تھا۔
تازہ اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟
بین پارلیمانی یونین کی رواں برس کی درجہ بندی یہ واضح طور پر بتاتی ہے کہ دنیا کے تمام ممالک کی پارلیمانوں میں خواتین کی نمائندگی میں بڑی کمی آئی ہے۔
البتہ خواتین کا تناسب بڑھ بھی رہا ہے اور تازہ اعداد و شمار کے مطابق عالمی سطح پر خواتین رکن پارلیمان کا مجموعی تناسب تقریبا ًایک چوتھائی سے بھی زیادہ ہو گیا ہے۔
سن 2004 سے اب تک یہ تعداد 10 فیصد کی رفتار سے بڑھتی رہی ہے، لیکن سن 2014 کے بعد سے اس میں صرف تین فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ واضح رہے کہ سن 2014 میں دنیا کے تمام قانون ساز اداروں میں خواتین نمائندوں کا حصہ 22.1 فیصد تھا۔
کون سے ممالک سر فہرست ہیں؟
بین پارلیمانی یونین کی تازہ درجہ بندی کے حساب سے دنیا کے دیگر تمام ممالک کے مقابلے میں روانڈا کی پارلیمان میں خواتین کی نمائندگی اول نمبر پر ہے۔ اس مشرقی افریقی ریاست کی پارلیمان میں تقریباً 61 فیصد خواتین قانون ساز پائی جاتی ہیں۔
کیوبا، نکاراگوا اور میکسیکو کی پارلیمان میں بھی مردوں سے زیادہ خواتین قانون ساز ہیں۔ انڈورا اور متحدہ عرب امارات نے بھی اس ضمن میں صنفی برابری حاصل کر لی ہے۔
دوسری جانب عمان، یمن اور بحرالکاہل کی جزیرے والی ریاست تووالو کی پارلیمنٹ میں کوئی بھی خاتون رکن نہیں ہے۔
دو سطحی پارلیمانی نظام رکھنے والے ممالک پر تحقیق کرتے ہوئے، آئی پی یو نے ایوان بالا کے بجائے ایوان زیریں یا اس ایوان پر توجہ مرکوز کی، جس کے ارکان براہِ راست عوام منتخب کرتے ہیں۔
ص ز/ ج (روئٹرز، ڈی پی اے)