1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دنیا بھر کے آرتھوڈوکس کلیساؤں کا ہزار سال بعد پہلا اجلاس

مقبول ملک19 جون 2016

دنیا بھر کے آرتھوڈوکس مسیحی کلیساؤں کے اعلیٰ ترین رہنماؤں کا ایک ہزار سال بعد ہونے والا پہلا اجلاس یونانی جزیرے کرِیٹ کے شہر ہیراکلیئن میں شروع ہو گیا ہے۔ ایسا آخری کلیسائی اجلاس پچھلی مرتبہ 1054ء میں ہوا تھا۔

Panorthodoxes Konzil auf Kreta
جونانی جزیرے کرِیٹ کے شہر ہیراکلیئن میں شروع ہونے والی ’پین آرتھوڈوکس کونسل‘ کے شرکاء کی ایک تصویرتصویر: picture-alliance/AP Photo

یونانی دارالحکومت ایتھنز سے اتوار انیس جون کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق مسیحیت کی دو ہزار سال سے زائد پرانی تاریخ میں ایک حوالے سے یہ اجلاس دراصل اپنی نوعیت کا صرف دوسرا اجتماع ہے۔

اس سے قبل اسی طرح کا ایک اجتماع 962 برس قبل سن 1054ء میں ہوا تھا اور اس میں مسیحی عقیدہ باقاعدہ طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا، جن میں سے ایک مسلک کیتھولک کہلایا اور دوسرا آرتھوڈوکس۔ مسیحیت کی تاریخ میں قریب ایک ہزار سال پہلے کے اس واقعے کو ’عظیم تقسیم‘ کی اصطلاح کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔

Heraklion میں ہونے والے اس عالمی آرتھوڈوکس کلیسائی اجلاس کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں آرتھوڈوکس عقیدے کی کئی اہم شاخوں کے اعلیٰ ترین نمائندے حصہ نہیں لے رہے، جس کی وجہ سے اس ’آرتھوڈوکس کونسل‘ کہلانے والے اجلاس کی کامیابی کے بارے میں شروع سے ہی شکوک و شبہات ظاہر کیے جانے لگے ہیں۔

قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ اس اجلاس کے لیے آرتھوڈوکس کلیسا کی زیادہ سے زیادہ شاخوں کو مدعو کرنے اور ’کونسل‘ کی تفصیلات طے کرنے میں بھی نصف صدی سے زائد کا عرصہ لگا۔

اے ایف پی نے لکھا ہے کہ اس اجلاس کے آغاز پر شرکاء نے اتوار کے روز آرتھوڈوکس پینٹی کوسٹ (Orthodox Pentecost) منایا، جو دراصل ایک ضیافت لیکن اس مسیحی عقیدے کی اعلیٰ ترین مذہبی تقریب ہوتی ہے۔ یہ اجتماع 27 جون تک جاری رہے گا۔

قریب ہزار سال بعد منعقد ہونے والی اس ’کونسل‘ کے شرکاء چند روز قبل ہی یونان پہنچنا شروع ہو گئے تھےتصویر: picture-alliance/AP Photo

ایتھنز سے ملنے والی رپورٹوں میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ خود آرتھوڈوکس کلیسا کی طرف سے اس اجتماع کو ’مقدس اور عظیم کونسل‘ کا نام دیا جاتا ہے، جس دوران شرکاء اس عقیدے کے تحت شادی کرنے اور روزے رکھنے جیسے مذہبی اور سماجی امور کے سلسلے میں پائے جانے والے آپس کے اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔

اس کے علاوہ یہ مشورہ بھی کیا جائے گا کہ امریکا اور آسٹریلیا جیسے جن ملکوں میں آرتھوڈوکس کیلساؤں کے پیروکاروں کی تعداد بہت کم ہے، وہاں مختلف کلیسائی انتظامی علاقوں میں آرتھوڈوکس چرچ کی متحدہ نمائندگی اور موجودگی کو کیسے یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

اس کونسل کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس موقع پر ہونے والی عبادت میں یونانی صدر پاوَلوپولوس نے بھی خاص طور پر شرکت کی اور یہ ’سروس‘ یونان کے سرکاری ٹیلی وژن سے براہ راست نشر بھی کی گئی۔

ہیراکلیئن میں اس کونسل میں دیگر رہنماؤں کے علاوہ روسی آرتھوڈوکس کلیسا کے سربراہ Kyrill بھی شریک نہیں ہیں، جو قریب 130 ملین آرتھوڈوکس مسیحیوں کے مذہبی پیشوا ہیں۔ یہ تعداد دنیا بھر میں آرتھوڈوکس مسیحی آبادی کی تعداد کا نصف بنتی ہے۔

روسی آرتھوڈوکس کلیسا کے سربراہ پیٹریآرک کِیرِل جو اس اجلاس میں شریک نہیں ہوئےتصویر: picture-alliance/dpa/A. Meneghini

جو دیگر کلیسائی رہنما اس کونسل میں شامل نہیں ہوئے، وہ بلغاریہ اور جارجیا کے ان آرتھوڈوکس کلیساؤں کے سربراہان ہیں، جو دونوں ہی روسی آرتھوڈوکس چرچ کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں۔

مسیحیت کے کئی ذیلی شاخوں میں تقسیم آرتھوڈوکس عقیدے کے پیروکاروں کی دنیا بھر میں تعداد قریب 250 ملین یا 25 کروڑ بنتی ہے۔ اس عقیدے کے روسی اور یونانی آرتھوڈوکس کلیساؤں جیسے کُل 14 ذیلی گروپ ہیں، جن میں سے مذہبی حوالے سے ہر ایک اپنی جگہ خود مختار ہے۔

عالمی سطح پر آرتھوڈوکس مسیحیت کو گزشتہ کئی عشروں کے دوران سابق سوویت یونین میں آنے والی بڑی تبدیلیوں، پھر سوویت یونین کی تقسیم سے پیدا ہونے والی صورت حال اور پچھلے کئی برسوں کے دوران مشرق وسطیٰ میں پیش آنے والے حالات و واقعات نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس کے علاوہ اس کلیسا کو مختلف ملکوں میں قومی اور سیاسی سطح پر بار بار کئی طرح کے مسائل کا سامنا بھی رہتا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں