1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
ماحول

دنیا جنگلات کی کٹائی روکنے کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام، رپورٹ

9 اکتوبر 2024

ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ گزشتہ سال جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے لیٹویا کے رقبے کے برابر جنگلات کا علاقہ ختم ہو گیا۔ سب سے زیادہ درخت استوائی علاقوں میں ختم ہو رہے ہیں، حالانکہ برازیل میں بہتری کے آثار نظر آئے ہیں۔

جنگلات دنیا کے 80 فیصد زمینی پودوں اور جانوروں کی انواع کا مسکن ہیں
جنگلات دنیا کے 80 فیصد زمینی پودوں اور جانوروں کی انواع کا مسکن ہیںتصویر: Adarsh Sharma/DW

فارسٹ ڈیکلریشن اسیسمنٹ نامی تنظیم کی جانب سے منگل کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، 2023 میں، 6.37 ملین ہیکٹر جنگلات کو تباہ کر دیا گیا، جو تقریباً لیٹویا کے سائز کے برابر ہے۔

جنگلات کی کٹائی کے خاتمے کے ہدف کے حصول کے لیے، سن دو ہزار تیس تک یہ تعداد 4.4 ملین ہیکٹر سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے، لیکن یہ ہدف بہت پیچھے چھوٹ گیا ہے۔

دنیا بھر میں جنگلاتی آگ کے باعث ہلاکتیں: 2023ء اس صدی کا بدترین سال

رپورٹ کے مطابق، درختوں کی اس بڑے پیمانے پر تباہی کی بنیادی وجوہات زراعت، سڑک کی تعمیر، آگ اورلکڑیوں کا کاروبار تھے۔

فارسٹ ڈیکلریشن اسیسمنٹ رپورٹ کے سرکردہ مصنف، ایوان پالمیگیانی کے مطابق "اس دہائی کے آغاز سے عالمی سطح پر، جنگلات کی کٹائی کی روک تھام میں بہتری آنے کے بجائے یہ بدتر ہوئی ہے۔"

انہوں نے کہا کہ "ہم جنگلات کی کٹائی کو ختم کرنے کے لیے ایک اہم عالمی ڈیڈ لائن سے صرف چھ سال دور ہیں، اور جنگلات کاٹنے، ان کےانحطاط اور خطرناک حد تک آگ لگنے کا سلسلہ جاری ہے۔"

جنگلوں میں آگ بھی درختوں کی بڑے پیمانے پر تباہی کی بنیادی وجوہات میں شامل ہےتصویر: Ye Aung Thu/AFP/Getty Images

بارانی استوائی جنگلات پر خصوصی توجہ

رپورٹ کے مطابق، عالمی جنگلات کی کٹائی کو روکنے کے اہداف کو پورا کرنے کا ایک اہم طریقہ بارانی استوائی علاقوں میں جنگلات کی کٹائی کو کم کرنا ہے۔

تاہم، 2023 میں جنگلات کی کٹائی کا تقریباً 96 فیصد برازیل، انڈونیشیا، بولیویا اور جمہوریہ کانگو جیسے استوائی ممالک میں ہوا۔

استوائی اوشیانا واحد استوائی خطہ تھا جس نے 2023 کے ہدف کو پورا کیا۔

برازیل، اگرچہ اب بھی عالمی سطح پر جنگلات کی کٹائی کی سب سے زیادہ شرح والا ملک ہے، لیکن لوئیز اناسیو لولا دا سلوا کے صدر بننے کے بعد سے اس صورتحال میں نمایاں بہتری آئی ہے۔

ایمیزون جنگلات کو بچانے کے لیے جرمنی کی برازیل کو مالی مدد

رپورٹ کے مطابق، برازیل کی حکومت کی طرف سے ایمیزون کے بارانی جنگلات، جو کاربن کو جذب کرنے کا کام کرتے ہیں، کے تحفظ کے لیے نافذ کیے گئے اقدامات نے خطے میں جنگلات کی کٹائی میں 62 فیصد کمی کی ہے۔

تاہم، ایمیزون کے جنوب میں سوانا کے علاقے ایل سیراڈو میں جنگلات کی کٹائی میں اضافہ ہوا ہے۔

اس دوران سب سے بڑا دھچکہ بولیویا اور انڈونیشیا میں لگا۔ بولیویا میں، 2015 اور 2023 کے درمیان جنگلات کی کٹائی میں 351 فیصد اضافہ ہوا، محققین کے مطابق اس رجحان کے "کم ہونے کے کوئی آثار نہیں دکھائی دیتے"۔

انڈونیشیا میں جنگلات کی کٹائی میں دو سال کی کمی کے بعد گزشتہ سال دوبارہ اضافہ ہونا شروع ہوا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ جزوی طور پر "ماحول دوست" مصنوعات تیار کرنے کے لیے استعمال ہونے والے مواد کی مانگ کی وجہ سے ہے جیسے کہ کپڑوں کے لیے ویسکوز اور برقی گاڑیوں کی بیٹریوں کے لیے نکل اور قابل تجدید توانائی کی ٹیکنالوجیز۔

جنگلات دنیا کے 80 فیصد زمینی پودوں اور جانوروں کی انواع کا مسکن ہیںتصویر: TONY KARUMBA/AFP

کیا صورت حال کو تبدیل کیا جا سکتا ہے؟

سن دو ہزار اکیس میں، گلاسگو میں اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس میں 140 سے زیادہ ممالک نے جنگلات کی کٹائی کو ختم کرنے کا عہد کیا۔ محققین کے مطابق یہ عہد پورا نہیں ہو رہا ہے۔

رپورٹ کی شریک مصنف، ایرن میٹسن نے کہا، "جنگلات کے تحفظ کے عالمی اہداف کو پورا کرنے کے لیے، ہمیں جنگل کے تحفظ کو سیاسی اور اقتصادی خواہشات سے محفوظ بنانا چاہیے۔"

انہوں نے کہا، "ہمیں بنیادی طور پر کھپت اور پیداوار کے اپنے ماڈلز کے سلسلے میں اپنے رویوں پر نظر ثانی کرنا ہو گی تاکہ قدرتی وسائل کے زیادہ سے زیادہ استحصال پر انحصار کم ہوسکے۔"

پالمیگیانی کا خیال ہے کہ اس صورت حال کی اصلاح اب بھی ممکن ہے۔

لیکن اس کے لیے، صنعتی ممالک کو جنگلات سے مالا مال ممالک کے تحفظ کی کوششوں میں اپنی حمایت پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔

گزشتہ ہفتے، یورپی کمیشن نے ماحولیاتی تنظیموں کے احتجاج کے بعد اپنے انسدادِ جنگلات قانون پر عمل درآمد کو 2025 کے آخر تک ملتوی کر دیا۔

جنگلات دنیا کے 80 فیصد زمینی پودوں اور جانوروں کی انواع کا مسکن ہیں۔ وہ آبی چکروں کو منظم کرتے ہیں اور ماحول سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں، جو انہیں موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ میں اہم بناتے ہیں۔

ج ا ⁄ ص ز (اے ایف پی، ڈی پی اے)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں