’دنیا دیکھ رہی ہے‘، ایران میں مظاہروں پر ٹرمپ کی تنبیہ
عاطف توقیر
30 دسمبر 2017
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے چھ شہروں میں جاری حکومت مخالف مظاہروں کے تناظر میں تہران حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’دنیا دیکھ رہی ہے‘‘۔ جمعے کے روز ایران میں مہنگائی کے خلاف بڑے عوامی مظاہرے ہوئے ہیں۔
اشتہار
ٹرمپ نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا، ’’بہت سی رپورٹس ہیں کہ پرامن ایرانی شہری، جو حکومت کی بدعنوانی اور ریاست کی جانب سے وسائل دوسرے ممالک میں دہشت گردی کو ہوا دینے میں خرچ کئے جانے سے تنگ ہیں۔‘‘
ٹرمپ نے مزید کہا، ’’ایرانی حکومت کو اپنے عوام کے حقوق کا احترام کرنا چاہیے بہ شمول اظہار رائے کی آزادی کا۔ دنیا دیکھ رہی ہے۔‘‘
ایرانی میڈیا کے مطابق چند روز قبل مظاہروں میں جھڑپوں کے بعد گزشتہ روز سکیورٹی فورسز کی جانب سے خبردار کیے جانے کے باوجود ہزاروں ایرانی شہری احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکلے۔ جمعے کی صبح ان مظاہروں سے قبل درجنوں افراد کو حراست میں بھی لیا گیا تھا۔
سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی ویڈیوز میں عوام ملک میں ’مذہبی انتظامیہ‘ تک کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے۔ ان مظاہروں میں ’شرم کرو ملاؤں‘ اور ’ہمارے ملک سے نکل جاؤ‘ جیسے نعرے بھی سننے کو مل رہے تھے۔
ایران سے افغان مہاجرین کی تکلیف دہ واپسی
اقوام متحدہ کے مطابق ہم سایہ ممالک خصوصاﹰ ایران سے مہاجرین کو جنگ زدہ ملک افغانستان واپس بھیجا جا رہا ہے۔ صرف پچھلے ہفتے ایران سے چار ہزار افغان مہاجرین کو جبراﹰ واپس ان کے وطن بھیج دیا گیا۔
تصویر: DW/S. Tanha
ایک غیر یقینی مستقل
بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرت کے مطابق 19 تا 25 نومبر کے دوران ہزاروں افغان مہاجرین کو ایران سے افغانستان واپس لوٹایا گیا۔ اس تنظیم کا کہنا ہےکہ مہاجرین کو واپس افغانستان بھیجنے کی ایک وجہ ایران میں تارکین وطن کے لیے پناہ گاہوں کی اب تر ہوتی صورت حال ہے۔
تصویر: DW/S. Tanha
ایک تنہا سڑک
عالمی تنظیم برائے مہاجرت کے مطابق 89 فیصد مہاجرین، جنہیں واپس افغانستان بھیجا گیا، تنہا تھے، جن میں سے بڑی تعداد تنہا مردوں کی تھی۔ واپس بھیجے جانے والے مہاجرین میں فقط سات خواتین تھیں۔
تصویر: DW/S. Tanha
پرانے مہاجرین کا تحفظ
افغان مہاجرین کو شدید سردی کا سامنا ہے۔ بین الاقوامی تنظیم نے اس دوران ساڑھے سات سو مہاجر گروپوں کی امداد کی جن میں 127 تنہا بچے بھی شامل تھے، جب کہ 80 افراد کو طبی امداد دی گئی۔
تصویر: DW/S. Tanha
ایران میں مہاجرین سے نامناسب برتاؤ
اس شخص نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایران میں اسے بے دخل کرنے سے قبل ڈنڈے سے پیٹا گیا۔ اس کے مطابق اس کے پاس ایران میں کام کرنے کے باقاعدہ کاغذات بھی تھے مگر اسے واپس بھیج دیا گیا۔ ہرات میں ایرانی قونصل خانے کے ایک عہدیدار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ افغان مہاجرین کے خلاف سخت پالیسیاں اختیار نہیں کی جا رہیں۔
تصویر: DW/S. Tanha
سخت سردی میں گھر واپسی کا راستہ بھی نہیں
ایران بدر کیے جانے والے اس مہاجر نے نام نہیں بتایا مگر اسے بارہ دن تک ایک حراستی مرکز میں کام کرنا پڑا تاکہ وہ اس قید سے نکل سکے۔ ’’یہاں سخت سردی ہے اور میری رگوں میں لہو جم رہا ہے۔‘‘ میں نے اپنا فون تک بیچ دیا تاکہ مجھے رہائی ملے۔ اب میں یہاں سرحد پر ہوں اور گھر واپسی تک کے پیسے نہیں۔
تصویر: DW/S. Tanha
مشکل زندگی کو واپسی
بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرت کے مطابق ساڑھے پانچ لاکھ سے زائد افغان مہاجرین رواں برس ایران اور پاکستان سے وطن واپس پہنچے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ قریب 90 ہزار افراد افغانستان میں داخلی طور پر بے گھر ہیں اور مختلف کیمپوں میں نہایت کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
تصویر: DW/S. Tanha
6 تصاویر1 | 6
مغربی شہر ہمدان میں مظاہروں میں ’آمر مردباد‘‘ کے نعرے بھی لگائے گیے۔ بحیرہء کیسپیئن کے کنارے آباد ہمدان کے شہر راست میں مظاہروں میں سیکڑوں افراد نے شرکت کی۔ ان ویڈیوز کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
دوسری جانب صدر حسن روحانی نے ان مظاہروں کے تناظر میں جمعے کے روز پارلیمانی اسپیکر سے اپنی طے شدہ ملاقات منسوخ کر دی۔ اطلاعات ہیں کہ وہ آج کابینہ کے ایک ہنگامی اجلاس میں شرکت کریں گے۔
جمعرات کے روز مختلف مقامات پر مظاہرین اور سکیورٹی اہلکاروں کے درمیان جھڑپوں کے بعد حکام نے مظاہرین کو خبردار کیا تھا کہ وہ مظاہروں سے باز رہیں۔ شمال مشرقی ایرانی صوبے رضاوی خراسان کے تین شہروں میں جمعرات کو مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھیں۔
قطر کا بحران: کون کس کے ساتھ ہے؟
02:37
تہران کی انتظامی حدود کے سکیورٹی سربراہ محسن ہمدانی نے کہا ہے کہ اس طرح کے مظاہروں کی اجازت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مظاہرے کرنے والے افراد سے ’سختی سے نمٹا‘ جائے گا۔
ہمدانی نے ایرانی اپوزیشن گروپوں پر الزام عائد کیا کہ وہ پس پردہ ان مظاہروں کی حمایت کر رہے ہیں۔ ایرانی میڈیا کا کہنا ہے کہ ان مظاہروں میں سینکڑوں افراد شریک ہوئے تاہم سوشل میڈیا پر دعوے کیے جا رہے ہیں کہ ہزار ہا افراد سڑکوں پر نکلے ہیں۔