دنیا مشرقی یروشلم کو فلسطینی دارالحکومت تسلیم کرے، ترکی
شمشیر حیدر روئٹرز/اے ایف پی
13 دسمبر 2017
ترکی نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ مشرقی یروشلم کو فلسطینی دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کرے۔ یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے امریکی اعلان کے بعد آج بدھ کو ترکی میں اسلامی ممالک کی ایک کانفرنس جاری ہے۔
اشتہار
ترکی نے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے اعلان کے ردعمل میں اسلامی ممالک کی ایک کانفرنس طلب کی تھی۔ اسلامی ممالک کے سربراہان کے ہنگامی اجلاس سے قبل ان ممالک کے وزرائے خارجہ کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ترک وزیر خارجہ نے اپنے خطاب میں دنیا سے مشرقی یروشلم کو بطور فلسطینی دارالحکومت تسلیم کرنے کی اپیل کی۔
ترک وزیر خارجہ مولود چاؤش اولو کا کہنا تھا، ’’سب سے پہلے تمام ممالک کو فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا چاہیے اور اس کے لیے ہم سب کو مل کر کوشش کرنی چاہیے۔‘‘
چاؤش اولو نے مسلم اکثریتی ممالک کے وزرائے خارجہ سے مخاطب ہوتے ہوئے مزید کہا، ‘‘ہمیں دوسرے ممالک کو قائل کرنا چاہیے کہ وہ سن 1967 کی فلسطینی سرحدوں کے مطابق فلسطینی ریاست کو تسلیم کریں اور مشرقی یروشلم کو اس ریاست کا دارالحکومت تسلیم کریں۔‘‘
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں یروشلم ایک اہم وجہ اختلاف قرار دیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں یہ شہر کیسا تھا اور اب تقریبا پچاس برس بعد یہ کیسا دکھتا ہے؟
تصویر: Reuters/A. Awad
آج کا ’جبل زیتون‘
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’جبل زیتون‘
عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ پانچ سے دس جون تک جاری رہی تھی۔ یہ تصویر سات جون سن 1967 کو لی گئی تھی۔ اگر اس تصویر میں قدیمی شہر واضح نہ ہوتا تو دیکھنے والا شائد سمجھ نہ سکتا کہ یہ کون سا مقام ہے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
آج کی الاقصیٰ مسجد
یہ مسجد ٹمپل ماؤنٹ میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے بلکہ یہودیت میں بھی اسے بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی روایات کے مطابق اسی مقام پر دو انتہائی مقدس ٹمپل تھے، جن کا تذکرہ بائیبل میں بھی ملتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام میں یہ تیسرا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔ اسی طرح مسیحیت میں بھی ٹمپل ماؤنٹ مذہبی اعتبار سے بہت مقدس ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کی الاقصیٰ مسجد
الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔
تصویر: Reuters/
آج کا ’باب دمشق‘
یروشلم کا یہ تاریخی دروازہ قدیمی شہر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی علاقے میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کل یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’باب دمشق‘
یہ دروازہ جولائی سن 1537 میں عثمانیہ دور کے سلطان سلیمان نے بنوایا تھا۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لے گئی ہے، جس میں یہ دروازہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ قدیمی شہر میں داخل ہونے کے سات دروازے ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔
تصویر: Reuters/
آج کا قدیمی شہر
یروشلم کا قدیمی شہر سن انیسو اکیاسی سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مختلف مذاہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مسجد الاقصیٰ اور گنبد الصخرہ کے علاوہ یہودیوں کا ٹمپل ماؤنٹ اور ویسٹرن وال بھی یہیں واقع ہیں جبکہ مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ’چرچ آف دی ہولی سپلکر‘ بھی یروشلم میں ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کا قدیمی شہر
یہ مقام ہمیشہ سے ہی انتہائی مصروف رہا ہے، جہاں دکانیں بھی ہیں اور سیاحوں کے لیے دلکش مناظر بھی۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لی گئی تھی۔ پچاس سال بعد بھی یروشلم کے اس قدیمی بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ تب بھی انتہائی شاندار تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔
تصویر: Reuters/Fritz Cohen/Courtesy of Government Press Office
آج کی ’مغربی دیوار‘
ویسٹرن وال (مغربی دیوار) یا دیوار گریہ یہودی مذہب میں بہت زیادہ مقدس تصور کی جاتی ہے۔ یہودی مذہب کے ماننے والے اس دیوار کو چھو کر اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس دیوار کی زیارت کی خاطر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ مقامات تفویص بھی کیے گئے ہیں تاہم یہاں ہر کوئی سکیورٹی چیک کے بعد جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کی ’مغربی دیوار‘
مغربی دیوار (ویسٹرن وال) کو دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہودی مذہب میں اسے حقارت آمیز اصطلاح تصور کیا جاتا ہے اور یہودی اسے اس نام سے نہیں پکارتے۔ یہ تصویر یکم ستمبر سن 1967 میں لی گئی تھی۔
یروشلم یہودیوں، مسیحیوں اور مسلمانوں کے لیے یکساں طور پر ایک مقدس مقام ہے۔ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق یہ تیسری مقدس ترین جگہ ہے۔ کئی دہائیوں سے جاری فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں یروشلم کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
اسرائیل نے سن 1967 میں عرب اسرائیلی جنگ کے دوران مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا تھا اور بعد ازاں اسے اپنا حصہ قرار دے دیا تھا۔ تاہم عالمی سطح پر مشرقی یروشلم کو اسرائیل کا حصہ تسلیم نہیں کیا جاتا۔
گزشتہ دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد متعدد مسلم ممالک میں اس امریکی فیصلے کے ردعمل میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
ترکی نے ٹرمپ کے اس اقدام کے جواب میں ایک مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے کے لیے اسلامی ممالک کے سربراہان کی ہنگامی کانفرنس طلب کر رکھی ہے۔ ترک صدر ایردوآن کی کوشش ہے کہ آج استنبول میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں مسلم ممالک کے سربراہان امریکی صدر ٹرمپ کے اس فیصلے کے خلاف ایک سخت اور حتمی لائحہ عمل پر اتفاق کر لیں۔